لائف از بیوٹی فل اور یہودی


ایک عام پاکستانی ہرگز اندازہ نہیں کرسکتا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں پر کیا بیتی۔ کتابوں میں کچھ واقعات پڑھنے اور فلمیں دیکھنے سے احساس کیا جاسکتا ہے، مکمل تصویر ہمارے سامنے نہیں آتی۔ فلسطین، کشمیر اور برما میں مسلمانوں پر ظلم کیا جارہا ہے لیکن اس کا موازنہ ہولوکاسٹ سے نہیں کیا جاسکتا۔

یورپ میں یہودیوں کی آبادی 1941 میں 90 لاکھ تھی۔ دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو 30 لاکھ یہودی باقی بچے تھے۔ دو تہائی یہودی نوجوان، بزرگ، خواتین، بچے مارے جاچکے تھے۔ کسی قوم کی کبھی ایسی نسل کشی نہیں کی گئی۔ روانڈا کے قتل عام میں کچھ جھلک دیکھی جاسکتی ہے جہاں 100 دن میں ایک قبیلے کے دس لاکھ افراد مار دیے گئے تھے۔

میں نے برلن اور واشنگٹن کے ہولوکاسٹ میوزیم دیکھے ہیں۔ ان یہودیوں کی یادگاریں دیکھی ہیں جو دوسری جنگ عظیم میں قتل کیے گئے۔ ایک لمحے کو سوچیں کہ آپ یہودی ہیں اور ہٹلر کے دور میں نازیوں کے قبضے میں ہیں۔ بہت سے لوگ خود موت سے نہیں ڈرتے لیکن جب والدین، بہن بھائیوں، بیوی بچوں، سب کو سزائے موت سنادی جائے اور بچنے کا کوئی راستہ نہ ہو تو ہر چیز سے ایمان اٹھ جاتا ہے۔

ملالہ یوسف زئی کو پاکستان کی این فرینک کہا جاتا ہے۔ این فرینک ایک جرمن یہودی لڑکی تھی جس نے ہٹلر کے دور میں ایمسٹرڈیم میں چھپ کر وقت گزارا اور ڈائری لکھتی رہی۔ آخر وہ اور اس کے خاندان کو نازیوں نے گرفتار کرکے موت کے کیمپوں میں منتقل کردیا جہاں وہ پندرہ سال کی عمر میں غالباً بیمار ہوکر انتقال کرگئی۔ بعد میں اس کی ڈائری اس کے رشتے داروں کو ملی اور انھوں نے کتابی صورت میں چھاپ دی۔ اس کی کروڑوں کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں اور دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں سے ایک ہے۔

ہولوکاسٹ کے پس منظر میں بہت سے ناول لکھے گئے ہیں اور فلمیں بنائی گئی ہیں۔ ایسی ہی ایک فلم میں نے کل دیکھی جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ یہ فلم ملک عمید نے تجویز کی تھی اور انھیں شاید رضا رومی نے دیکھنے کی ترغیب دی تھی۔

یہ ٹریجڈی نہیں، کامیڈی فلم ہے۔ ایک اطالوی کتاب فروش کی کہانی جو باتونی ہے اور مضحکہ خیز حرکتیں کرتا ہے۔ اسے ایک غیر یہودی لڑکی سے محبت ہوجاتی ہے۔ وہ لڑکی اپنے منگیتر اور خاندان کے سامنے اطالوی یہودی نوجوان کے ساتھ بھاگ جاتی ہے۔ ان کا ایک بیٹا پیدا ہوتا ہے۔ بیٹے کا پسندیدہ کھلونا فوجی ٹینک ہے۔

دوسری جنگ عظیم شروع ہوچکی ہے۔ باپ بیٹے کو گرفتار کرکے ٹرین میں کیمپ منتقل کیا جاتا ہے۔ ماں غیر یہودی ہے اس لیے اسے کیمپ بھیجنے کا فیصلہ نہیں کیا جاتا لیکن وہ اصرار کرکے ٹرین پر سوار ہوجاتی ہے۔ کیمپ میں مردوں اور خواتین کو الگ الگ رکھا جاتا ہے اس لیے اس کے ساتھ جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

باپ کو بیٹے سے بہت محبت ہے۔ وہ مسلسل جھوٹ بولتا ہے تاکہ بچے کو احساس نہ ہو کہ وہ کسی مشکل میں ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ہم تفریح کے لیے سفر پر نکلے ہیں۔ ہم ایک کھیل میں شریک ہیں جس کے جیتنے والے کو انعام میں اصلی فوجی ٹینک ملے گا۔ کیمپ میں رہنے اور بیگار کرنے کے پوائنٹس ملیں گے۔ بچے کیمپ میں فوجیوں کی نظر سے چھپیں گے تو انھیں بھی پوائنٹس ملیں گے۔

کیمپ میں لوگوں کو اوون میں ڈال کر قتل کیا جارہا ہے لیکن باپ بچے کو ڈر سے بچانے کے لیے کہتا ہے کہ یہ سب کھیل ہے۔ تمام یہودی بچوں کو قتل کردیا گیا لیکن وہ اسے سمجھاتا ہے کہ سب چھپ گئے ہیں اور تم بھی فوجیوں سے چھپے رہو۔

آخر جنگ ختم ہونے کی خبر آتی ہے اور نازی فوجی کیمپ چھوڑ کر بھاگنے کی فکر میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ باپ بیٹے کو ایک جگہ چھپاکر کہتا ہے کہ یہاں سے مت نکلنا۔ پھر بیوی کی تلاش میں نکلتا ہے اور خواتین کی عمارت میں گھسنے پر پکڑا جاتا ہے۔ فوجی اسے بندوق کے زور پر ایک کونے میں لے جاتا ہے لیکن وہ ایسے لیفٹ رائٹ کرتا ہوا چلتا ہے کہ بیٹا سمجھتا ہے کہ کھیل جاری ہے۔

اتحادی فوجیں آجاتی ہیں۔ بچے کو ماں مل جاتی ہے۔ ہٹلر کے فوجی کیمپ چھوڑ کے بھاگ چکے ہوتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے باپ کو قتل کردیتے ہیں۔ پوری فلم کو ہنس ہنس کر دیکھنے والے آخری منظر میں اداس ہوجاتے ہیں۔

لائف از بیوٹی فل کو بہترین غیر ملکی فلم سمیت سات آسکرز ملے جن میں مرکزی کردار ادا کرنے والے رابرٹو بینی نی کا بہترین اداکار کا ایوارڈ شامل ہے۔ فلم میں ہیروئن کا کردار ان کی اہلیہ نے ادا کیا۔ بینی نی ہی فلم کے ڈائریکٹر تھے اور انھوں نے یہ فلم ایک کتاب ”ان دا اینڈ آئی بیٹ ہٹلر“ یعنی ”میں نے آخر میں ہٹلر کو ہرادیا“ پر بنائی تھی۔ یہ کتاب ان کے والد نے لکھی تھی جو دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن کیمپ میں اسیر رہے تھے۔
پاپ جان پال نے لائف از بیوٹی فل کو اپنی پانچ پسندیدہ فلموں میں سے ایک قرار دیا تھا۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi