قندیل، بری عورت


\"Sadia\" مادری زباں میں پہلی کاوش ہے سو کسی بھی قسم کی بھول چوک یا گستاخی کو بالکل اسی طرح نظر اندز کیجئے گا جیسے اس غیرت مند معاشرے میں بڑھتی ہوئی رشوت ستانی اور جھوٹ کو کرتے ہیں۔ مزید نوازش ہو گی اگر اس مختصر کاوش کے مثبت پہلو اسی طرح ڈھونڈ کر محظوظ ہوں جیسے اس غیرت مند معاشرے کی بڑھتی ہوئی غیرت کو دیکھ کر کرتے ہیں۔ ارے صاحب، اس قدر کھا جانے والی نظروں سے تو مت گھوریے اب۔ آخر ایک کھاتے پیتے گھرانے کی عزت دار عورت ہوں۔ ایک ہلکی سی فرمائش ہی تو کی ہے۔ کسی ناخدا کی خدائی تو نہیں مانگ لی آخر! چلیے چھوڑیے، ناقص العقل ہوں اور گواہی بھی آدھی، مٹی ڈالیے اور تھوک دیجئے اس غصّے کو بلکل انہی گلیوں میں بہنے والے خون کی طرح۔

کل ہفتے کا دن تھا، یہاں بھی اور وہاں بھی، ادھر بھی اور ادھر بھی۔ سورج حسب معمول سوا نیزے پر ہی ٹکا رہا، یہاں بھی اور وہاں بھی، ادھر بھی اور ادھر بھی۔ ان بےشرم مثالوں سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کے نہ یہاں اور نہ وہاں اور نہ ادھر نہ ادھر میں چنداں فرق ہے۔ لیکن حضور، فرق تو ہے۔ بلکل ایسے جیسے سردیوں کی اور گرمیوں کی دھوپ مختلف ہے۔ -ایک جھلساتی ہے اور ایک گرماتی ہے۔ کچھ ایسا ہی فرق تھا ہفتے میں یہاں بھی اور وہاں بھی۔

یہاں شاید کچھ غیرت کی کمی ہے اور وہاں زیادتی۔جب آدھا دن گزارنے کے بعد ہم خواب خرگوش سے بیدار ہوئے تو حسب عادت اپنے فون کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ دنیا رک ہی نہ جائے اگر ہم اپنے فیس بک کی اپ ڈیٹس اور واٹس ایپ کے میسیجز نہ دیکھیں؟ صاحب گناہگار ہیں کافر نہیں۔ کس سہیلی نے اپنی فرانسیسی تعطیلات کی روح پرور تصاویر پوسٹ کی تھیں تو کہیں کراچی والی خالہ اپنے فن بریانی گری کے چھے چھے ثبوت دیتی دکھیں۔ ہماری بغل میں رہنے والی ہمسائی بھی اپنی نئی ڈیزائنر پوشاک (جسے مشکل وقت میں اونے پونے بیچ کر کوئی پانچ مرلے کا پلاٹ تو آ ہی جائے)  میں ملبوس کسی پنج ستارہ ہوٹل میں چہکتی میں نظر آئیں۔ لائک کرتے رہے اور بے خودی میں آگے بڑھتے رہے۔ ایک لمحے کو نظر اس معمولی سی خبر پر بھی پڑ گئی –

\’-ایک فاحشہ اپنے غیرت مند بھائی کے ہاتھوں رات کی تاریکی میں جہنّم واصل ہوئی\’

اجی سچ پوچھئے تو دل کو ایک کمینی سی خوشی تو ضرور ہوئی۔ آخر ایک کھاتے پیتے گھرانے کی عزت دار عورت ہوں۔ ارے کمینی کیوں؟ یہ تو وہ قمقمہ ہے جو ہمارے دل میں غیرت کے نام پر ابھی بھی اپنی پوری آب و تاب سے جل اٹھتا ہے۔ بھیا ملک و قوم کی درخشاں عزت کے نام پر بٹا لگا دیا۔ چھی چھی۔۔۔ وہ تو بھلا ہو اس قوی جواں کا جس نے اس ملت کی وہ حرمت بچا لی جو بستی ہی یہاں کی عورتوں کے بدن میں ہے۔ جنت میں سچے موتیوں کا محل بنا لیا، بازار میں نیلام ہونے سے لٹتی ہوئی عزت بچا لی، سر فخر سے بلند کر دیا سب جن و انس کا بالکے نے۔

سنا ہے اسی فاحشہ نے اپنے اسے بھائی کو بھرے بازار میں موبائل فون مرمت کرنے کی دکان ڈال کر دے رکھی تھی۔ اپنے غریب ماں باپ کو سر چھپانے کو ایک کرائے کا مکان بھی لے دیا تھا۔ بہن کی سسرال والوں کا جہیز کے لیے بھوکا پیٹ بھی بھرا۔ اور سب کی ہوس بھری آنکھیں سینکنے کا سامان تو صبح شام کرتی ہی تھی اور وہ بھی فری میں۔ اسی گھسے پٹے لطیفے کے مصداق \’سگریٹ ایک لعنت ہے۔ اسے پی پی کر ختم کریں۔\’ ایک حرافہ کی کمائی بھی تو لعنت ہی ہے۔ اسے اڑا اڑا کر ختم تو کرنا ہی ہو گا۔ ہم ! تو کہتے ہیں غیرت ہو تو ایسی! جوان خون ہو تو ایسا جو ایک تلخ سے سچ پر ہی ابل کر آنکھوں میں اترتا دکھے۔

بڑی غیرت والا بھائی تھا جی۔ گھر کا چراغ جلانے والی اسی بہن کے منہ پر تکیہ رکھ کر اس کا گلہ گھونٹنے کے بعد نہ صرف اپنے کپڑے جھاڑے کہ مبادا کوئی نجاست اس کے پاک بدن کو نہ چھو لے بلکہ اسی بہن کی نقدی اور موبائل فون لے کر بھی بھاگ اٹھا کہ کہیں کچھ رہ نہ جائے، کوئی نشانی کوئی رمق، کوئی قمقمہ، کوئی غزل۔

دل محظوظ تو ہوا۔ ہنسی بھی آئی۔ لیکن پھر سوچا کے اٹھ کر ایئر کنڈیشنر کا تھرموسٹیٹ ہی کم کر لوں۔ یخ بستہ بستر جھلسنے لگا تھا۔ پوسٹ کو بس سرسری سا لائک کیا۔ ایک کھاتے پیتے گھرانے کی عزت دار عورت ہوں۔ کیا یہی مقام رہ گیا ہے کہ ایک نیم پسماندہ علاقے کی طوائف کے قتل پر کان دھرتی پھروں؟ یہ تو ہونا ہی تھا بابا۔ آج ہوتا یا کل۔ ایسا بھی کیا آسمان ٹوٹ پڑا۔ اجی خس کم جہاں پاک! ہاں ملکی وقار کے تحفّظ پر خوش ہوں۔ لائک کر تو دیا ہے۔

گاتی پھرتی ہو گی کہیں بھٹکی روح

بھلا ہوا موری مالا ٹوٹی

میں رام جپن سے چھوٹی

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments