مفاد پرست صاحب حثیت سیاسی لوگ


اگر مذہب فرقہ قومیت کو ایک طرف کرتے ہوئے لوگوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے توسماج میں صرف دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں اچھے اور برے لوگ۔ لیکن اس بیاض میں بھی کئی اقسام ہوتی ہیں اور جو ان ہی اچھے برے لوگوں سے منسلک ہوتی ہیں۔ جن میں سیاسی لوگ سماجی علاقائی قوم پرست علاقہ معززین وغیرہ شامل ہیں۔ اگر ان میں تفریق کی جائے تو نچلے طبقے کے لوگ اور صاحب حثیت لوگ سیاسی وسماجی حلقوں مین عام پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی بھی علاقے کی فلاح وبہبود کے لئے ان دو حلقوں کا اہم کردار ہوتا ہے، خواہ سیاسی میدان میں سماجی یا علاقائی میدان میں اور کسی بھی معاشرے کی کسی بھی ترقی کا انحصار ان پر ہوتا ہے۔

لیکن میں اپنے موضوع کے عین مطابق بات کرونگا اور وہ ہے صاحب حثیت لوگ یہ معاشرے کے کسی بھی حصے میں پائے جاتے ہیں۔ کئی ایک فرد کی صورت میں، ایک گھرانے یا ایک خاندان کی صورت میں ان میں اچھا ہونے کی صفت بہت کم ہوتی ہے ضروری نہیں سارے برے ہوتے ہیں۔ البتہ یہ کہنا بھی نامناسب ہوگا کہہ مفاد پرست انسان برا ہوتا ہے مگر یہ حقیقت ہے جہاں صاحب حثیت لوگ درمیانی یا نچلے طبقے کو استعمال کریں۔ سیاسی یا سماجی حوالے سے وہاں یہ کہنا عقل مندی ہوگی کہہ یہ اپنی بدولت مفاد پرست نہیں ہوتے بلکہ یہ دیگر انسانی طبقاتی ذائع کی صورت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ دراصل اس عمل میں وہ اپنے پیسے، پوزیشن، سیاسی اثروثوق علاقائی رباب کو بھی استعمال میں لاتے ہیں۔ جبکہ یہ لوگ اپنی پوزیشن کو مزید مضبوط تر بنانے کے لئے اس موجودہ دور میں اپنی تمام تر قوت سیاسی رشتہ داری پر لگاتے ہیں کیونکہ اس وقت ریاست پاکستان میں سب سے اہم کام سمجھا جاتا ہے۔

جبکہ اس کے بے شمار فوائد بھی ہیں اور سیاسی میدان میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے سیاسی نمائندگان کے لئے اور یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی وجہ سے سیاسی نمائندگان کا کارساز چلتا ہے ان کے ہوتے ہوئے علاقے کے عام لوگوں تک رسائی سیاسی نمائندگان کے لئے ضروری نہیں ہوتی خواہ انتخابات کا سیزن ہو یا عام سیزن ہو عام لوگوں کی ان کی ضرورت کے حساب سے ضمیر کی خرید وفروخت میں یہ صاحب حثیت لوگ سیاسی دلال یا بروکر کا کردار ادا کرتے ہیں۔

جبکہ موثر پلاننگ کے ساتھ یہ اپنی چال الیکشن کے آخری ایام میں چلاتے ہیں۔ اور سیاسی نمائندگان کے لئے سود مند ثابت ہوتے ہیں ان کے پاس اپنی کمائی کے چار سال چند ماہ ہوتے ہیں مگر کسی اور کے لئے کمائی کے لئے یہ چند ماہ ہی ضروری سمجھتے ہیں۔ اور یہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ جبکہ ان کے پاس کام کرنے کا بہترین فارمولا ہوتا ہے خود سے کم تر سے کام نکالنا اپنے برابر کے کام آنا دنوں اطراف سے چال چلنا۔

ایسے لوگ معاشرے کو مزید پستی کی جانب گامزن کرنے کے لئے یہ اگر ایک فرد کی صورت میں ہوں تو سخت محنت کرنی ہوتی ہے، تمام اطراف سے اکیلے کردار ادا کرناہوتا ہے لیکن اگر یہ ایک فیملی یا خاندان کی شکل میں ہو تو یہ کام آپس میں بانٹتے ہیں۔ وہ اس طرح چند ایک اقتدار میں رہنے والے نمائندگان کی چاپ لوسی میں چند انتظامیہ ودفاعی و ایڈمنسٹریشن میں مختلف عہدوں پر رہنے والوں کی اُٹھاگری میں چند ضلعی بلدیاتی نمائندگان کی واہ واہ میں چند ایک سماجی وسرکاری اداروں سے یارویاری میں چند آنے والی نسل کو ان اسالیب اور کردار کا پاتھ  پڑھانے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔

میرے مطابق یہ عمل بھی موروثی اور وراثتی صفت میں آتا ہے یہ دکھنے میں انتہائی شریف، خوش اخلاف، نرم گو، اور اس حد تک مثبت ہوتے ہیں کہہ شراب اور پانی میں تمیز نہیں سمجھتے سب کچھ جان کر بھی انجان رہتے ہیں۔ اور اس قدر معیاری منافق ہوتے ہیں کہہ ان میں اچھابرا انسان ایک ہی شمار ہوتا ہے، یہ ظاہری صورت میں کسی بھی قسم کا اختلاف نہیں رکھتے کسی سے بھی۔ البتہ یہ تمام تر خصوصیات ایک منافق طبقے، فرد یا خاندان کی نشانیاں ہی ہوتی ہیں اگر مزید گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو ازل سے ہی ان کے اندر معاشرتی ترقی کا عنصر، علاقائی مفاد کی سوچ، سیاسی نظریہ دور دور تک نہیں پایا جاتا۔

اگر چہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہہ میرٹ کی پامالی کاپرچار ان صاحب حثیت لوگوں کے مرہون منت ہے۔ اپنے اسی کرادار کی بدولت ان کو حاصل ہونے والے چند فوائد سرکاری ٹھیکہ، سرکاری پوسٹیں، دیگر اسکیمات، پروموشن، جائز ناجائز کاروبار میں فوقیت اپنے انتظامی و سیاسی تعلقات کو مضبوط بنانا ہوتا ہے اس کے برعکس اگر عام طبقے کا بندہ جب سیاسی، سماجی، علاقائی فلاح وبہبود کے لئے کام کرے اور کامیاب ہوجائے تو متعلقہ لوگوں کی ریپوٹیشن کو خطرہ اور دھندے میں خلل کے مترادف عمل ہے۔

البتہ کسی بھی علاقے گوٹھ گاؤں شہر قصبے محلے، شخص کی زبوحالی اور استحصال کی سب سے بڑی وجہ یہی لوگ ہوتے ہیں یہ بہت کم تعداد میں ہونے کے باوجود بھی کسی علاقے قوم کو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر استعمال میں لاتے ہیں۔ ان کو سمجھنا اتنا آسان نہیں ہوتا اسی لئے کچھ نمونے پیش کرنے کے لئے طویل عرصے بعد ایک عنوان لکھنا ضروری سمجھا۔ تاکہ ہم اپنے اردگرد کے لوگوں کی پہچان رکھ سکیں اور کم از کم اور نہ صحیح اس بات کو تو سمجھ سکیں کہہ ہم آج تک سیاسی حوالے سے اپنا انتخاب علاقائی مفاد یا اجتماعی ترقیاتی مفاد کی خاطر یا اپنے ضمیر کے فیصلے یا پھر شریعی آئینی اختیار کو استعمال نہیں کرتے۔ جبکہ بالا اقسام کے صاحب حثیت لوگ ان کا ذاتی مفادات کی خاطر اپنی انتخاب کا سودا کرواتے ہیں۔

برائے مہربانی تنقید برائے اصلاح کی اشد ضرورت ہے اگلے بلاگ میں پھر ملاقات ہوگی ایک نئے موضوع کے ساتھ شکریہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).