لسانی تساہل کی شکار اردو صحافت اور ترجمہ


اردو صحافت میں تخلیق سے لے کر ترجمہ اور مواد سے لے کر کمپوزنگ اور چھپائی تک‘ بے شمار مسائل ہیں؛ بلکہ اگر ہم یہ کہیں تو مبالغہ نہیں ہو گا‘ کہ یہاں مسائل ہی مسائل ہیں۔یہاں اگر ہم محض ترجمہ کے حوالے سے بات کریں تو آئے دن ایسی بے شمار غلطیاں نظروں سے گزرتی ہیں جس کو پڑھنے کے بعد طبیعت مکدر ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ کئی مرتبہ تو ایسی مضحکہ خیز جملے نظروں سے گزرتے ہیں کہ وہ اپنے آپ میں کسی چٹکلہ یا مزاح سے کم نہیں ہوتے۔ 

’فیبلس فوربس‘ کو اردو میں کیا لکھیں گے؟ ’یوزر فرینڈلی‘ کے لیے کون سا لفظ استعمال کرنا چاہیے؟ کیا ’پولیٹکلی کریکٹ‘ کے لیے کوئی مناسب متبادل اردو میں ہے؟ ایسے کئی سوالوں سے ان دنوں اردو صحافی روز دوچار ہو رہے ہیں۔ اکثر انھیں بالکل مناسب و موزوں متبادل ترجمہ نہیں ملتا اور وہ تھک ہار کر انگریزی کے الفاظ کا استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

اس تحریر کا مقصد کسی پر تنقید کرنا نہیں ہے، بس یہ یاد دلانا ہے کہ ان دنوں ہماری پوری زبان انگریزی تہذیب اور اس کی ثقافت سے بری طرح متاثر ہو ر ہی ہے۔ جو جملے خالص اور نرے اردو کے لگتے ہیں، ان پر زرا سی توجہ دیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ محض انگریزی میں سوچے گئے ہیں اور ان جانے میں دماغ نے ان کا اردو ترجمہ کر ڈالا ہے۔

میڈیا کی زبان پر انگریزی کے ان اثرات کی دو وجوہ بہت واضح ہیں۔ ایک تو یہ کہ جو لوگ ان دنوں صحافت کے میدان میں وارد ہو رہے ہیں، ان کی تمرین میں ترجمہ کی زبان شامل نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ ہماری موجودہ صحافت یا میڈیا سے سروکار اور تعلق رکھنے والے وہ لوگ ہیں، مسائل پر بھی جن کی نظر نہایت سطحی ہے؛ جو صرف زبان کو نہیں، پوری تہذیب کو تہس نہس کر رہے ہیں۔ ایسے افراد کے لیے انگریزی الفاظ کا سہارا لینے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے، لیکن کیا ہماری پوری صحافت یا میڈیا کا تعلق محض گزرے ایک دو صدی میں دکھائی دینے والی عالم گیریت سے ہے یا اس کا کوئی ماضی بھی ہے؟

زبانوں کے درمیان لین دین کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جو زبانیں ایسے تبادلے سے بچتی ہیں اور اپنی انانیت کے حصار میں رہنا چاہتی ہیں، وہ اپنی موت آپ مر جاتی ہیں۔ دنیا کی بیش تر بلکہ کسی حد تک تمام زبانوں میں دوسری زبانوں کے الفاظ و تراکیب کی آمیزش کا عمل جاری ہے، جو لفظوں سے لے کر تخلیق تک پر محیط ہے، لیکن ہر زبان کی اپنی ایک تہذیب ہوتی ہے۔ اس میں جب دوسری زبان کے الفاظ آتے ہیں تو روپ بدلتا ہے، لہجے بدلتے ہیں‘ کئی بار معانی بھی بدل جاتے ہیں۔ مثلاً کسی نے رپورٹ سے’ رپٹ‘ بنائی توکہیں ’سائیکل‘ کو ایک دوسرے معنی میں استعمال کیا۔ ’براہمن‘ کو اپنی تہذیب کے مطابق برہمن میں بدلا‘ اسی طرح ’تِریتو‘ کو’رُت‘ میں ڈھالا۔ اسکول اور کالج ہمارے الفاظ ہو چکے ہیں اور ان پر ہماری ہی زبان کے قواعد نافذ ہوتے ہیں۔ انگریزی میں بھی ایسی مثالیں مل جائیں گی۔ لیکن اردو صحافت یا میڈیا کی موجودہ صورت حال بہت سنگین ہے۔ وہ انگریزی کے الفاظ کو جوں کا توں قبول اور استعمال کر رہے ہیں۔ اس میں کسی لفظ کے ساتھ کھیلنے، اس کو اپنی تہذیب میں ڈھالنے‘ اس سے لڑنے جھگڑنے اور ایک نئی طرح کا اپنی ضرورت کی ٹکسال میں ڈھلا لفظ بنانے کی کوشش نہیں نظر آتی‘ بلکہ ایک نظریاتی سایہ نظر آتا ہے‘ جس میں اپنی خود غرضی کا رویہ بھی شامل ہے۔

کوئی چاہے تو یہ سوال پوچھ سکتا ہے کہ کسی بھی زبان کے الفاظ یا جملوں کو ٹھیک اسی طرح اپنانے اور بولنے میں کیا حرج ہے؟ اگر کنیڈا کو کینیڈا بولیں اور ایوارڈز کا استعال کریں تو کیا ہمارا کام نہیں چل سکتا؟ بے شبہ کام چل سکتا بلکہ چل بھی جاتا ہے‘ لیکن دھیرے دھیرے ہم دیکھتے ہیں کہ زبان کے تئیں تساہل بالآخر ایک تہذیب کے تئیں تساہل میں بدل رہا ہے؛ نیز اس تساہل کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ہم اپنے معیار کے لیے کچھ چننے کو آزاد نہیں ہیں‘ بلکہ ایک دیے ہوئے لفظ کے آس پاس جو کچھ مل رہا ہے‘ اسے چرتے ہوئے جینے یا جگالی کرنے پر مجبور ہیں۔

اس کی سب سے واضح مثال آج کے میڈیا کی زبان ہے‘ جو لگ بھگ تمام چینلوں‘ سارے نامہ نگاروں اور سب اینکروں کی بالکل ایک جیسی ہو گئی ہے۔ ہر جگہ سنسنی خیز ’خلاصہ‘ دِکھتا ہے (لفظ ’خلاصہ‘ کو ہندی تو چھوڑیے‘ اردو کے بعض سینئر صحافی جس معنی میں استعمال کر رہے ہیں وہ کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ اس ’خلاصہ‘ کے معنی ’تلخیص‘ کے آتے ہیں اور ہندی والوں کی دیکھا دیکھی اردو والوں نے اپنے اصل لفظ ’انکشاف‘ کو بھلا دیا ہے‘ جو انتہائی افسوس کی بات ہے)۔ ایسے بہت سے الفاظ اور جملے آپ کو نظر آئیں گے‘ جن میں ’مخالفت‘ کو ’خلافت‘ لکھا ہوا بھی نظر آئے گا؛ وہیں سیریل بلاسٹ میں ’دہلی‘، ’دلی‘ دیکھنے کو ملے گا۔ جو لوگ ایسی فاش غلطیوں کو میڈیا کی مجبوری بتاتے ہیں اور اسے عام بول چال تک پہنچنے کی کوشش سے جوڑتے ہیں‘ وہ نہ میڈیا میں کوئی امکان تلاش کرنا چاہتے ہیں‘ نہ عام بول چال میں کسی قسم کے فہم کا ادراک رکھتے ہیں۔

اس قسم کے لسانی تساہل ہی کا نتیجہ ہے‘ کہ پہلے ہم نہیں سوچتے‘ کوئی اور سوچتا ہے؛ جن کی ہم نقل کرتے ہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ یہ صرف صحافت یا میڈیا کی نہیں‘ ہندوستان میں ان دنوں نظر آ رہے پورے تصوراتی ادارے کی مجبوری ہے‘ جو ملمع کاری کا لیبل لگا کر اپنی جڑوں سے بہت دور ہو چکی ہے۔ اُنھیں زمینی حقائق نظر نہیں آتے‘ انھیں خبروں میں بھی طبقہ اشرافیہ ہی نظر آتا ہے۔ عہد حاضر میں تو صحافت نے اور بھی اپنا وقار کھو دیا ہے؛ اور اس میں اردو یا ہندی کیا انگریزی صحافت نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کیا ان سب کے لیے خود صحافت یا میڈیا ہی ذمہ دار نہیں ہے؟ اس پر بھی گفتگو کی ضرورت ہے۔ 

یاد رکھیے زبان صرف ذریعہ ابلاغ نہیں ہوتی‘ وہ ایک پوری تاریخ اور تہذیب ہوتی ہے۔ آج اگر میڈیا کی زبان میں ہماری کوئی انفرادیت نہیں نظر آتی‘ اس قسم کے رویے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا تو یہ بھی ہمارے لیے معنی نہیں رکھتا‘ کہ میڈیا ہمیں کیسی خبریں دے رہا ہے اور ایک جدید خول کی آڑ میں کس طرح ہماری تہذیب کا قلع قمع کیا جا رہا ہے۔ شاید یہی وہ وجوہ ہیں کہ کوسی کے سیلاب سے بے دخل ہوئے 25 لاکھ لوگوں کی تباہی پیچھے چھوٹ جاتی ہے اور ’آئی ٹی سیکٹر‘ کے 25000 ’پروفیشنلز‘ کے ’جاب لیس‘ ہو جانے کے اندیشے سے امریکا کا معاشی بحران بڑا ہو جاتا ہے۔ یہ اور اس قسم کی خبریں ہم آئے دن اخبارات اور میڈیا میں دیکھتے ہیں۔ کیا ہم کبھی اس سے باہر نکلیں گے یا وہی رفتار بے ڈھنگی ہمارا رویہ ہو گا؟! بہر حال یہ ایک سوچنے والی بات ہے۔ 

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah