قندیل کا قتل بھی بھلا دیا جائے گا!


\"benish\"میرے صحافی دوست نے 2 روز قبل کہا تھا کہ قندیل بلوچ کو بھولنے میں 48 گھنٹے کا وقت بھی نہیں لگے گا۔ اس وقت ان کی بات سن کر بہت غصہ آیا تھا لیکن ان کا کہنا بلکل صحیح تھا، پاکستان میں انصاف ملنا تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہی ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں خرم ذکی ہو یا پھر امجد صابری۔۔۔ دونوں کو قتل کردیا گیا اور قاتل آزاد گھوم رہے ہیں، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے بیرسٹر اویس شاہ کو دن دہاڑے اغوا کرلیا گیا، قانون نافذ کرنے والے ادارے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں لیکن اویس شاہ کو بازیاب نہ کرایا جاسکا۔ چلیئے یہ تو وہ ہائی پروفائل کیسز ہیں جن کے لئے تحقیقات کرنا بہت ضروری ہے۔ لیکن قندیل بلوچ کا کیس تو یکسر مختلف ہے، مدعی بھی سامنے گواہ بھی سامنے اور قاتل بھی سامنے، لیکن انصاف کب ملے گا معلوم نہیں۔

 تین روز ہوگئے، سوشل میڈیا کوئن کے لئے سب کے دل دکھی ہیں اور وہ اس دکھ کا برملا اظہار بھی کر رہےہیں، کوئی کچھ لکھ رہا ہے تو کوئی کچھ، اور یہی نہیں اس کے مرنے پر خوشی کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ بری عورت تھی اچھا ہوا مر گئی۔ اس کی وڈیوز اور تصاویر کو رات کے اندھیرے میں دیکھنے والے دن کی روشنی میں توبہ توبہ کر رہے ہیں کہ اچھا ہوا مر گئی گندگی پھیلا رہی تھی، وغیرہ۔ قندیل کے قتل پر وہ مرد حضرات بھی \’غیرت کے نام پر قتل \’کا دفاع کر رہے ہیں جو عملی زندگی میں ہر دوسری عورت کے بستر پہ سونے کا سوچتے ہیں۔ چلیئے اگر وہ گندی عورت تھی تو اس کے جسم کے نشیب و فراز سے آپ بھی تو مزے لیتے تھے، سنا ہے قندیل بلوچ کے جنازے میں بہت کم لوگ تھے، سوشل میڈیا پر دس لاکھ سے زائد فالوورز رکھنے والی قندیل کے جنازے میں اتنے کم لوگوں کی شرکت سے یہی واضع ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں مرنے کے بعد بھی لوگ معاف کرنے کے قائل نہیں۔ شکر ہے کہ قندیل کا جنازہ پڑھا دیا گیا ورنہ اس کے طوائف ہونے کا بہانہ بنا کر اسے بے جنازہ ہی دفن کردیا جاتا، سوال یہ ہے کہ اگر وہ طوائفہ بھی تھی تو اسے طوائف بنانے میں ہاتھ کس کا تھا؟

وہ مفتی صاحب جو میڈیا پر آکر قندیل کو چاند سے تشبیہ دے رہے تھے اس کے مرنے کے بعد ان کی جانب سے بیان آیا کہ میں قندیل کو معاف کر چکا ہوں۔ میں پوچھتی ہوں کہ آپ کون ہوتے ہیں اسے معاف کرنے والے؟ آپ تو خود مزے لے رہے تھے جب وہ آپ کے ساتھ سیلفیاں لے رہی تھی، آپ کیا اتنے معصوم تھے کہ اس نے آپ کی ٹوپی اپنے سر پر رکھی اور آپ اسے روک نہ سکے، اس کی غلطی یہ تھی کہ اس نے آپ کو بے نقاب کیا، آپ کا اصلی چہرہ دنیا کو دکھایا۔

قندیل کو قتل کرنے والا \’غیرت مند بھائی\’ پولیس ریمانڈ پر ہے جس سے تفتیش کی جارہی ہے کہ اس نے یہ قدم کیوں اٹھایا، کیونکہ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ برسوں بہن کے ٹکڑوں پر پلنے والے بھائی کی غیرت ایک دم کیسے جاگ گئی؟ غیرت جاگ گئی یا اسے کسی مقصد کے تحت جگایا گیا؟؟؟

 تفتیش کے دائرہ کار میں ایسے بہت سے پردہ نشینوں کے نام بھی آسکتے ہیں جنہیں قندیل بے نقاب کرنے والی تھی، اس کے بعد تحقیقات کا رخ نہ جانے کہاں مڑ جائے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ کیس بھی فائلوں میں بند کردیا جائے۔ ویسے بھی واقعے کو تین روز تو گزر ہی چکے،   اب بس عدالت سے تاریخ پر تاریخ ملے گی ،کچھ روز بعد لوگ بھول جائیں گے، اور جیسے قندیل کے جنازے پر کوئی نہ تھا ویسے ہی اس کی قبر بھی بے نام و نشاں رہ جائےگی۔

قندیل تو بجھ گئی، لیکن ایسے بہت سے سوال اپنے پیچھے چھوڑ گئی ہے جن کے جواب ہمیں کہیں سے نہیں بلکہ اپنے ضمیر سے ہی ملیں گے، بات صرف احساس کی ہے اور وہ اب معاشر ے سے ناپید ہو چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments