ریکٹر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ڈاکٹر معصوم یاسین زی کے تعلیم پر خیالات


ریکٹر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ڈاکٹر معصوم یاسین زی کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کریکولم کی بہت اہمیت ہے اسے دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دس سال میں ہم کہاں کھڑے ہوں گے۔ گفتگو کرتے ہوئے ہوئے انہوں نے کہا کہ دوچیزوں پر پالیسی سازوں کو خود بھی کلیر ہونا ہے اور پوری قوم کو بھی واضح کرنا ہے کہ ہم کس طرح بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں اور کس طرح کی تحقیق ملک میں ہورہی ہے۔

اس قسم کے سوالات کے جوابات اب قوم جاننا چاہتی ہے۔ ریکٹر انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں موجود افراد جن کا براہ راست تعلیم سے تعلق ہے انہیں مل بیٹھ کر ان مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا جو اس وقت ہمارے تعلیمی نظام کو درپیش ہیں۔ ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ ہمارا کریکولم کیا 21 ویں صدی کی ضروریات کے مطابق ہے یا نہیں کیا اس کریکولم کے مطابق ہم ایسے گریجویٹ پیدا کررہے ہیں جو مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق ہوں صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں اور 21 ویں صدی کے جو چیلینجز ہیں ان کے ساتھ نبرد آذما ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں۔

اگر آپ کسی ملک میں پڑھایا جانے والے کریکولم دیکھ لیں آب بتا سکتے ہیں کہ آئیندہ دس سالوں میں یہ ملک کہاں کھڑا ہوگا۔ کریکولم بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہمیں سب سے پہلے کریکولم کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور اس کو ازسرنو ترتیب دینا ہوگا۔ ہمیں ایک ایسا کریکولم ڈیزائین کرنا ہوگا جو ہمیں سنگل سرٹیفیکشن کی طرف لے جائے۔ ہمیں اگر ایک قوم بننا ہیں اور بہترین دماغ بنانے ہیں تو سب سے پہلے اس طرف توجہ دینا ہوگی کہ کیسے ملک میں یکساں سرٹیفیکیشن لائی جاسکے۔

ایک ایسا سرٹیفیکیٹ جومدرسہ کے طالب علم کے لیے بھی ہو اور کسی بھی پرائیوویٹ سکول یا حکومتی سکول میں زیرتعلیم بچوں کے لیے بھی جاری کیا جائے۔ اس یونیفارم سرٹیفیکیشن کے لیے کور مضامین کو انتخاب کرنا ہوگا جس کی بنیاد مختلف لیولز ہوں۔ ہر سطح کے لیے مختلف کور مضامین ہوں۔ اور اس میں پرفارمنس کی بنیاد پر اگلی سطح میں ترقی ہو۔ اس کے بعد ہمیں مختلف معیارات متعین کرنا ہوں گے۔ یہ دوسرا لیول ہوگا۔ ان تمام مقاصد کے حصول کے لیے کریکولم کا ازسر نومرتب ہونا لازمی ہے تاکہ ہمارے معیارات اور مْقاصد کا حصول ممکن ہوپائے۔

تیسرے لیول میں ہمیں چاہیے کہ امتحانات ( اویلوویلشن ) کو ٹیکسٹ بک یا سلیبس کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس کریکولم کے مطابق کریں جو معیارت وہاں متعین کیے گئے ہوں۔ جو بچہ اس طرح فارغ التحصیل ہوں گے وہ اس معیار کے طابق ہوں گے جو آپ نے ایک قوم اور ایک ذہن سازی کے لیے ترتیب دیے ہوں گے۔ اس طرح یکساں نظام تعلیم کا خواب پورا ہوسکے گا۔ ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ یکساں سرٹیفیکیشن کے اجرا کے لیے مضامین کے لیے کسی کو پابندکیا جائے کور مضامین کے علاوہ جو مضمون چاہیں پڑھائیں )

معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر معصوم یاسین زی کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں سب سے پاکستان میں بنیادی ڈگری کی واضح کرنا ہوگا۔ بنیادی طور پر چار سالہ ڈگری کے معیار پر پورا اترنے والے طلباء یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں جن میں سے بعض اکیڈیمیا کی طرف آتے ہیں بعض تحقیق کی طرف چلے جاتے ہیں یہاں پر ٹرمینل ڈگری واضح ہوجانی چاہیے۔ اگر آپ ٹرمینل ڈگری کو واضح کیا تو اس کا اس کا مطلب ہے کہ آپ ایک خاص شعبہ کے ماہر کو نہیں ایک آل راونڈر کو پیدا کیا ہے وہ آل راونڈ جہاں اپنے شعبہ کے کورسز پڑھے گا وہیں وہ دیگر مضامین مثال کے طور پر لاء بھی پڑے گا سوشیالوجی بھی پڑھے گا دین کے مضامین بھی پڑھے گا تو اس کے بعد جب آپ کے پاس جو طالب علم ہوگا وہ صیح معنوں میں آل راونڈر ہوگا جو عملی میدان میں اترنے کے قابل ہوگا۔

آپ اس طرح کے فارغ التحصیل کو جب میدان میں اتاریں گے تو نتائج واضح ہوں گے۔ ڈاکٹر معصوم یاسین زئی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد 56 ملین ہے۔ جو ہمارا بہت بڑا سرمایہ ہے کوئی بھی حکومت دنیا میں 56 ملین نوجوانوں کو نوکری نہیں دے سکتی۔ پاکستان میں ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو ہم نے اپنی طاقت میں بدلنا ہوگا۔ ان کو بوجھ نہیں سمجھنا یہی ہماری طاقت ہیں، ہماراخزانہ ہے ہم اگر یونیورسٹیز میں انٹرپرنورشپ کو فروغ دیں، اس میں ان نوجوانوں کو تربیت دیں گے تو فارغ التحصیل ہونے کے بعد نوجوان بجائے حکومتی دروازہ نوکری کے لیے کھٹکھٹانے کی بجائے اپنی کمپنیز اپنی جاب خود پیدا کریں گے اور سینکڑوں دیگر لوگوں کو بھی روزگار دیں گے۔

یہی ایک واحد ماڈل جس سے پاکستان کے ان 56 ملین نوجوانوں کو نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے بھی کار آمد بناسکتے ہیں۔ جامعات میں انکوبیشن سنٹرز وہ ادارے ہوں گے جو انٹرپرونیورز بنائیں گے۔ ایسے طالب علم جو بہترین دماغ رکھتے ہیں اپنے آئیڈیاز ان سنٹرز میں لائیں گے جن پر عملی کام کے بعد بڑی کمپنیز بن سکتی ہیں۔ اس مقصد کے حوال کے لیے اکیڈمیہ اور انڈسٹری کا لنکج بہت ضروری ہے۔ اگر سی پیک کے تناظر میں اس کو دیکھا جائے تو چائینہ اپنی بڑی صنعت پاکستان لائے گا بہت بڑی تعداد میں انڈسٹری پاکستان آرہی ہے تو اگر اہم اس ضرورت کے مطابق ہیومین ریسورس پیدا کرتے ہیں تو آپ اپنی یونیورسٹیز میں ایسے لوگ پیدا کرنے ہیں جو اس انڈسٹری کی ضرورت کو پورا کرسکیں تواس میں ریسرچ، ڈیولپمنٹ کی ضروریات پوری کرنے کے آپ قابل نہیں ہیں تو آپ دونوں کے درمیان روابط کو بڑھانہ ہوگا اس حوالے سے اکیڈیمیا کو آگے آنا ہوگا۔ )

ڈاکٹر معصوم یاسین زئی کا کہنا تھا کہ سوشل سائنسز کا فروغ کسی بھی ملک اور معاشرے کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہم نے پاکستان میں دوسری سائنسز جن میں بیسک سائنسز جن میں انجیئنرنگ، بیالوجی، کیمسٹری نیوکلیر سائنسزودیگر شامل تھیں پر بہت زیادہ توجہ دی لیکن وہیں سوشل سائنسز کو یکسر نظر انداز کردیا اور اس طرف سے توجہ ہٹالی جس کا خمیازہ اب بھی ہم بھگت رہے ہیں۔ ہمارے اند ر سوشل سائنٹسٹ کی کمی کی وجہ سے ہماری سوسائٹی اب گرنے جارہی ہے۔

ہمیں سوشل سائنسز کی طرف توجہ دینا ہوگی، یونیورسٹیز میں سوشل سائنسز کو رائج کرنا ہوگا۔ جن سکالرز کو پی ایچ ڈی کے لیے ہم باہر بھجوا رہے ہیں ان میں سخت تاکید کے ساتھ ان سکالرز کو شامل کریں کہ جو اچھے اداروں میں جاکر وہاں سوشل سائنسز میں پی ایچ ڈی ایز کریں۔ اب ہماری یونیورسٹیز میں یہ حالت ہو چکی ہے کہ اگر سوشل سائنسز کے پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے کسی پروفیسر کی ضرورت ہے اگر دس پوسٹس مشتہر کی جائیں تو ایک ہی امیدوار بمشکل دستیاب ہوتا ہے وہیں اگر بیسک سائنسز کی ایک اسامی مشتہر کی جائے تو سینکڑوں امیدوار درخواستیں دیتے ہیں۔

یہاں سے یہ واضح ہوتا کہ ہم نے ایک کو نظر انداز کیا اور دوسرے کو فروغ دیا۔ انہوں نے اپنی یونیورسٹی میں سوشل سائنسز کے شعبہ کے متعلق کہا کہ ہمارے پاس صرف تین پروفیسرز ہیں اگر ہمارے ہاں عالمی سطح کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں تین پروفیسرز ہیں تو اندازہ لگائیں دیگر یونیورسٹیز کی کیا حالت ہوگی وہاں پر پی ایچ ڈیز کہاں سے آئیں گے۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ ہمیں اپنے سوشل ایشوز کا حل تلاش کرنا ہے جب تک اچھے سوشل سائنسز آگے نہیں آئیں گے تب تک سوسائٹی کے مسائل کو ہم حل نہیں کرسکتے۔ آج کل ہمارے ہاں جو بھی مسائل ہیں خاص طور پر جن کا تعلق سماج سے ہے ہمارے پاس ان کے حل کے لیے لوگ موجود نہیں۔ ٹیلی وژن کی ہی مثال لے لیں وہاں پر کوئی سوشل سائنٹسٹ نظر نہیں آتا۔ ہم اب بھی لیٹ نہیں ہیں ہمیں اس طرف پوری توجہ دینا ہوگی۔ )

ریکٹر بین الاقوامی یونیورسٹی کا کہنا تھا کہ ہر طالب علم چاہے وہ سکول، کالج یایونیورسٹی سے ہو اسے کھیل کے میدان میں لانا ہوگا۔ طالب علم اگر کسی منفی سرگرمی میں پائے جاتے ہیں تو اس کی وجہ کھیل کے میدان کی عدم دستیابی ہے۔ جب بچوں کو بنگلہ کے سکول تک محدود کردیا جائے گا تووہ ڈرگ کا استعمال نہ کرے تو اور تو کیا کرے۔ قوم کے بچوں کی ذمہ داری ہم سب کی ہے اگر ہم ان کو کھیل کا میدان فراہم نہیں کرتے غیر نصابی سرگرمیاں فراہم نہیں کرتے تو وہ بچہ کہاں جائے، کہاں اپنی انرجی کو استعمال کرے اگر ہم یہ ذمہ داری پوری نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم نے اپنے بچے لوگوں کے حوالے کردئے ہیں اب وہ جیسے چاہیں ان کو استعمال کریں۔ اس عمر میں بچے اس انرجی کی بوتل کی مانند ہوتے ہیں جو انرجی سے بھرچکی ہوتی ہے اگر اس کو استعمال نہ کیا جائے تو وہ پھٹ جاتی ہے۔ ہم نے بچوں کو مثبت سرگرمیوں میں شامل کرنا ہے تاکہ اس انرجی کو مثبت سمت میں استعمال کیا جاسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).