نشے میں ڈوبتے نوجوان اور تحریک انصاف کا مستقبل


کچھ ماہ قبل ایک وزیر نے ایک مقام پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ 70 یا 75 فیصد طلبہ و طالبات نشے میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ اسلام آباد کے پوش اسکولوں کی کینٹینوں سے ٹافی کے ریپر میں لپٹی آئس اور دیگر نشے کی ادویات باآسانی مل جاتی ہیں۔ بس بات نکلی تو چل پڑی، بجرنگی بھائی جان میں مار کھا کر چاند نواب کا پتہ بتانے والے کامل عارف صاحب (جو اب ”کیمرہ مین کامل عارف“ سے اقرار الحسن کی چھوٹی شکل بن گئے ہیں ) نے بھی جامعہ کراچی اور کراچی کی کئی جگہوں پر چھاپے مارے اور آئس استعمال کرنے والے لڑکے لڑکیاں اور ان کو بیچنے والے دو ڈھائی افراد پکڑوا دیے۔ اس نوع کا چھچھورپن چند اور چینلوں اور اخباروں نے بھی کیا۔

مگر ہمارے پاس کچھ معصومانہ سوالات ہیں، اس ملک کے تمام ارباب اختیار سے بھی اور کیمرے اور مائیک والے مصلحین سے بھی۔

سب سے پہلا سوال ہمارا محترم وزیر صاحب سے ہے۔ حضور یہ جو 75 یا 80 یا جو بھی اعداد و شمار آپ نے ارشاد فرمائے یہ آپ پر الہام کے ذریعے القاء ہوئے یا یہ آپ کا اندازہ ہے؟ اس لئے کہ راقم الحروف نے پچھلے 12 سال سے سماجی تحقیق کے میدان میں بال سفید کیے ہیں اور سیکڑوں تحقیقات کیں اور تحقیقات کرائیں مگر یہ چشم کشا اعداد و شمار کبھی نظر سے نہ گزرے۔ پھر سوال یہ بھی ہے حضور کہ کوئی نشہ کرنے والا کسی بھی محقق کو کیونکر یہ بتا دے گا کہ وہ نشہ کرتا / کرتی ہے؟

سرکار! سماجی تحقیق پر Social Desirability بہت گہرے اثرات رکھتی ہے۔ کوئی بھی شخص یوں کھل کر کوئی بھی راز کی بات کسی محقق کو نہیں بتا دیتا۔ ہمارے معاشرے میں تو لوگ سگریٹ کی عادت کو بھی اپنے گھر والوں سے اور سماج کے دیگر افراد سے چھپانا چاہتے ہیں اور آپ کو آئس جیسے نشے کے حوالے سے اتنے اعداد و شمار مل گئے، واہ!

پھر سوال یہ بھی ہے کہ آپ کے انکشاف کا مطلب تو یہ ہوا کہ طلبہ و طالبات کی اکثریت تو بس نشے میں ڈوب ہی چکی ہے تو یہ جو طلبہ امتحانات پاس کر رہے ہیں، پوزیشنز لے رہے ہیں۔ تحریر و تقریر کے مقابلوں میں، کھیلوں میں حصہ لے رہے ہیں، یہ آسمان سے اتر رہے ہیں؟ اگر خدانخواستہ 75 کیا محض 10 فیصد طلبہ و طالبات بھی یوں نشے میں ڈوب چکے ہوتے تو پاکستان میں ہر گھر اس کی زد میں آ چکا ہوتا۔ پھر وزیر بہ تدبیر کو خطاب کر کے یہ انکشاف نہ کرنا پڑتا بلکہ ہر سمت سے عوامی حلقوں سے یہی صدا آ رہی ہوتی۔ مگر بھر بجرنگی بھائی جان والے کامل عارف صاحب کا کیا کریں؟ ان کے پروگرام میں بھی تو ایک نشئی لڑکا کہتا ہے کہ جی اکثر لڑکے، آئس کا نشہ کر رہے ہیں اور انہوں نے چھاپے میں ایک لڑکی بھی تو پکڑی تھی؟

بات اتنی سی ہے کہ ہر نشہ کرنے والے کو یہ لگتا ہے کہ سب لوگ ہی نشہ کرتے ہیں۔ نشہ کیا ہر قسم کی برائی کے شکار فرد کو یہ لگنے لگتا ہے کہ سارا سماج ہی اس برائی بلکہ ایسے بڑی برائیوں کا شکار ہے، یوں اپنے اقدام کی تاویلات تراشی جاتی ہیں اور خود کو کسی نوع کا بے گناہ ثابت کیا جاتا ہے۔ نشے کو اسکولوں، کالجوں یا جامعات تک پہنچ جانا کوئی بعید از قیاس بات نہیں مگر یہ ابھی تک ہمارے معاشرے کی اکثریت کا رجحان نہیں بلکہ ایک محدود سی اقلیت کا عمل ہے۔

جن مہنگے اسکولوں، کالجوں اور نجی جامعات کی طرف محترم وزیر باتدبیر اشارہ فرما رہے ہیں وہاں سخت انتظامیہ بھی پائی جاتی ہے، چوری چھپے کسی زیریں طریق سے کچھ نشے کی چیزیں وہاں پہنچ جاتی ہوں یہ تو ممکن ہے مگر وہاں کھلے عام یہ خرید و فروخت جاری ہو یہ صریحاً بعید از قیاس بات ہے۔ ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ اگر ملک کے کسی بھی طبقے میں کوئی بھی برائی پھیل رہی ہے تو اس کی روک تھام کس کا فرض ہے؟ حکومت کا؟ تو پھر اس موجودہ حکومت کے وزراء محض زبانی جمع خرچ کرنے کیوں پہنچ جاتے ہیں؟

اور بات نشے کی ہو اور صرف ”آئس“ کی ہی بات کر کے ختم کر دی جائے تو یہ موضوع سے انصاف تو نہ ہو گا؟ جب ڈاکٹر رمیش کمار نے شراب کے خلاف بل لانے کی کوشش کی تو وزیر محترم کی حکومت نے اس کی مخالفت کیوں فرما دی؟ محترم وزیر یہ بھی بتانا بھول گئے کہ جس طرح آئس تعلیمی اداروں میں پھیل رہی ہے اسی طرح کوکین کی رسائی کہاں تک ہو چکی ہے۔ وزیر محترم جامعات پر رکیک حملے کرنے سے قبل اپنے اعداد و شمار کو درست کر لینا آپ کا فرض تھا اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ جو لوگ شیشے کے گھروں میں رہتے ہیں وہ اپنے کپڑے بیس منٹ میں بدلتے ہیں کیونکہ :

اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت

دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ

ویسے بعید نہیں کہ آج کل کے نوجوان آئس نہیں بلکہ بھنگ چڑھا رہے ہوں۔ اس لئے کہ بدقسمتی سے جو چند فیصد حقیقی ووٹ تحریک انصاف کو پڑے ہیں وہ یوتھیوں کے ہی ہیں۔ آفریدی صاحب نے اگر تقریروں میں کشمیر فتح کرنے کے بجائے حقیقت میں درس گاہوں سے نشہ ختم کروا دیا تو پھر تو نوجوان یوتھیے نہیں رہیں گے۔ پھر تو کسی بھی انجینئرنگ سے اتنے ووٹ بھی نہیں ملیں گے۔ پھر تحریک انصاف کا کیا مستقبل ہو گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).