مشترکہ اعلامیہ پر عجلت میں ٹویٹس


مسئلہ وہی اندھی نفرت وعقیدت پر مبنی تقسیم کا ہے جس کے مسلسل ذکر سے میں خود اُکتا چکا ہوں۔

شاہزادہ محمد بن سلمان کے دورئہ پاکستان کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اسے کچھ دوستوں نے نہایت عجلت میں پڑھا اور ’’دریافت‘‘ کرلیا کہ اس میں مسئلہ کشمیر کا ذکر نہیں ہے۔ یہ ’’دریافت‘‘ نظر بظاہر برحق تھی۔اسے اچھالنے کے لئے ٹویٹروں کی بارش شروع ہوگئی۔

کسی اور کی جانب سے ہوئی اس ’’دریافت‘‘ کو نہایت عجلت میں ری ٹویٹ کرنے والوں کی اکثریت نے مجھے یقین ہے بذاتِ خود مذکورہ مشترکہ اعلامیہ کے متن کو بغور پڑھنے کی زحمت نہیں اٹھائی ہوگی۔ اپنے دلوں میں موجود تعصبات کے اثبات کے لئے ہمیں محض ایک پوائنٹ درکار ہوتا ہے۔ کسی اور کے توسط سے یہ مل جائے تو کام آسان ہوجاتا ہے۔

اپنی زندگی کے کئی برس خارجہ امور کے بارے میں رپورٹنگ کی نذر کرنے کے باعث مشترکہ اعلامیہ غور سے پڑھنا میری پیشہ وارانہ مجبوری رہی ہے۔ اسی باعث پیر کی سہ پہر جاری ہوئے اعلامیہ کا ایک ایک لفظ دھیان سے پڑھنا پڑا۔

پاکستان اور بھارت کے مابین گزشتہ ہفتے پلوامہ میں ہوئے واقعہ کی وجہ سے خوفناک حد تک بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں اس اعلامیہ کی ایک سطرغور طلب تھی۔ اس کے ذریعے اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے مرتب ہوئی ’’دہشت گردوں کی فہرست ‘‘ کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے سے اجتناب برتا جائے۔ انگریزی زبان میں اس خواہش کو “Avoiding Politicisation of UN listing Regime”کہا گیا ہے۔

یہ فقرہ دیکھتے ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ اس کے ذریعے بھیجے پیغام کو بھارت ہضم نہیں کر پائے گا۔ یہ سوچنے کے بعد ٹویٹر دیکھا توخارجہ امور پر تسلسل سے رپورٹنگ اور تبصرہ کرنے والے بھارتی صحافی اور تبصرہ نگار اسی فقرے کو خطِ کشیدہ لگاکر اُجاگر کررہے تھے۔

اس فقرے کی اہمیت کو درست انداز میں سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ یہ یاد رکھا جائے کہ جیش محمد کو اقوام متحدہ نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔اسی باعث یہ تنظیم پاکستان میں بھی ’’کالعدم‘‘ ٹھہرائی جاچکی ہے۔ تنظیم کے علاوہ مسئلہ مگر اس کے بانی مسعود اظہر کابھی ہے۔بھارت اقوام متحدہ کے ذریعے موصوف کو مختلف النوع پابندیوں کا نشانہ بنانا چاہ رہا ہے۔چین مگر اس پر رضا مند ہونے کے لئے چند ’’تکنیکی‘‘ سوالات اٹھارہا ہے۔بھارتی یہ سوالات اٹھانے پر بہت چراغ پا ہیں۔

پلوامہ کے واقعہ کے بعد سے بھارتی میڈیا میں چین کے اس ضمن میں اپنائے رویے کے بارے میں بہت واویلا مچایا جارہا ہے۔پیر کے روز جاری ہوئے اعلامیے کے ذریعے سعودی عرب نے درحقیقت چینی رویے کو درست قرار دیا ہے۔پاک بھارت کشیدگی کے تناظرمیں سعودی عرب کا اپنایا یہ رویہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ٹویٹر کے ذریعے ہمیں خارجہ امور کی نفاستیں اور باریکیاں سمجھانے کے خواہاں دانشور مگر اسے ’’دریافت‘‘ نہ کر پائے۔

ہماری رہ نمائی کو ہمہ وقت بے چین ان دانشوروں نے اس حقیقت پر بھی خاص توجہ نہیں دی کہ پاکستان آیا سعودی وفد اپنا دورہ مکمل کرنے کے بعد اسلام آباد سے براہِ راست بھارتی دارالحکومت نہیں گیا۔ سرکاری وفود کو لانے والا طیارہ واپس ریاض گیا اور وہاں ایک رات گزارنے کے بعد منگل کی شام دلی کے لئے روانہ ہوا۔

اسلام آباد سے براہِ راست دہلی تک پرواز سے اجتناب سفارتی حوالے سے یہ پیغام دیتا ہے کہ پاکستان پلوامہ کے واقعہ کے بعد بھارت میں میڈیا کے ذریعے پھیلائے جنون کے بارے میں Coolرویہ اپنائے ہوئے ہے۔ شاہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ہوئی ملاقاتوں میں ان سے یہ درخواست نہیں ہوئی کہ وہ فوراََ بھارت پہنچ کر’’معاملات کو ٹھنڈا‘‘ کرنے میں کوئی کردار ادا کریں۔

مشترکہ اعلامیہ میں اگرچہ پاکستان اور بھارت کے مابین ابھرتی ہوئی کشیدگی (Rising Tensions)کو مذاکرات کے ذریعے کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

اسلام آباد سے براہِ راست دلی روانگی سے اجتناب یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ سعودی عرب کی دانست میں اس کے پاکستان اور بھارت سے تعلقات کی حیثیت جداگانہ ہے۔ سفارتی زبان میں اسے دوممالک کو De-Hyphenate کرکے دیکھنا کہا جاتا ہے۔

سعودی عرب کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت بھارت کے ساتھ اس ملک کے مراسم سے کئی حوالوں سے اپنی سرشت میں قطعاََ مختلف ہے۔ ہمارے ساتھ تعلقات میں مذہبی اور جذباتی پہلو بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ بھارت کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات میں معیشت اور تجارت کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔اس پہلو کی اہمیت گزشتہ چند برسوں سے بہت نمایاں ہورہی ہے۔

امریکہ ایران کو اس کے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے کئی برسوں سے اقتصادی پابندیوں کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ اس کی شدیدخواہش رہی ہے کہ چین اور بھارت ایران سے تیل خریدنا بند کردیں۔ صدر اوبامہ کے دنوں میں اس کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن اس امر کو یقینی بنانے خاص طورپر بھارت گئی تھی۔دلی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس نے بھارت کو یقین دلایا تھا کہ اس کی ضرورت کا تیل سعودی عرب اسے ان ہی داموں مہیا کرنے کو تیار ہے جو ایران سے میسر ہوتا ہے۔

بھارت نے اس کی تجویز کافی حد تک مان لی۔ سعودی عرب سے کاروبار بڑھایا۔ ایران اس کی وجہ سے امریکہ کیساتھ مذاکرات پر مجبور ہوا۔ بالاخر اوبامہ حکومت اور ایران کے درمیان ایک معاہدہ ہوگیا۔ ٹرمپ نے برسراقتدار آنے کے بعد مگر یہ معاہدہ منسوخ کردیا ہے۔ ایران پر دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کردی ہیں۔چین اور بھارت پر ایک بار پھر زور دیا جارہا ہے کہ وہ ایران سے تیل خریدنے کے بجائے سعودی عرب سے اس ضمن میں رجوع کریں۔

بھارت کے لئے سعودی تیل کی رسد کو طویل المدتی بنیادوں پر یقینی بنانے کے لئے سعودی حکومت 44ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری کے ذریعے اس ملک میں ایک ریفائنری تعمیر کرنے کا ارادہ بنائے ہوئے ہے۔بھارت مگر صرف تیل کی رسد ہی کے لئے ایران پر انحصار نہیں کررہا۔اسے افغانستان تک رسائی کا جنون بھی لاحق ہے۔

اس رسائی کے لئے چاہ بہار کی بندرگاہ کو جدید ترین بنایا جارہا ہے۔ اس بندرگاہ سے افغانستان پہنچنے کے لئے ریل کی پٹڑی اور سڑکوں کی تعمیر کے منصوبے بھی ہیں۔بھارت ان منصوبوں کی تعمیل پر مصررہا تو ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ اس کے تعلقات میں گرمجوشی برقرار نہیں رہ پائے گی۔

سعودی عرب کو بھارت سے مذاکرات کرتے ہوئے اپنے اس Leverageکا بخوبی احساس ہے۔اس Leverageکو لیکن وہ ایک حد تک ہی استعمال کرسکتا ہے کیونکہ سعودی دورے کے فوری بعد اسرائیل کا وزیراعظم بھارت پہنچ جائے گا اور اسرائیل کی بدولت دلی،واشنگٹن کی Deep Stateکو اپنی ترجیحات کی افادیت کا احساس دلاسکتا ہے۔

ٹویٹس اور ری ٹویٹس کے ذریعے خارجہ امور کی باریکیوں کو سمجھنے سے لہذا پرہیز کریں۔مشترکہ اعلامیوں کو ازخود غور سے پڑھنے کی عادت اپنائیں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).