نیب والو! سندھ کے لوگوں کو خوش تو ہو لینے دیتے


سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کی گرفتاری کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی کی قیادت متحرک ہوگئی، آصف زرداری نے نیب کے افسر کو سندھی ہونے کا طعنہ دیا تو بلاول نے لندن میں بیٹھ کر کلمہ طیبہ پڑھ کر قسم کھائی کہ اس نے کرپشن نہیں کی، پیپلز پارٹی کے لوگ کہتے پھر رہے ہیں کہ جمہوریت اور اٹھارویں ترمیم کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔

اسپیکر سندھ اسمبلی کی گرفتاری اس وقت ہوئی جبکہ ایک دن پہلے سپریم کورٹ منی لانڈرنگ اور مبینہ جعلی اکاؤنٹس کیس کے فیصلے کے خلاف آصف زرداری اور بلاول کی نظرثانی درخواست رد کرچکی ہے۔

ایک طرف پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے بیانات دیکھے تو اچھی خاصی تپش محسوس ہوئی لیکن شام تک عام سندھی کے ردعمل کا جائزہ لیا تو ایک اطمینان تھا، ایک امید تھی کہ شاید اب کی بار سندھ میں کرپشن کو رواج دینے والوں کا سورج غروب ہونے لگا ہے۔

پھر یوں ہوا کہ اسٹوری ڈویلپ ہوتی گئی، سراج درانی کو اسلام آباد لایا گیا، پھر اسٹوری ڈویلپ ہوئی کہ سراج درانی کے گھر چھاپا مارا گیا، سندھ کابینہ کا ہنگامی اجلاس ہوا، مایوس چہروں کے ساتھ کئی سوالات لئے نظروں کا تبادلہ ہوا، میڈیا کو خبر جاری کی گئی، پھر اسٹوری ڈویلپ ہوئی کہ ارکان کابینہ سراج درانی کی رہائشگاہ پنہچے، ارے چھاپا؟ یہ چھاپا ہے؟ نہیں بھئی محاصرہ ہے یہ تو؟ پھر اسٹوری ڈویلپ ہوئی، دھرنے میں موجود رہنماؤں نے مختلف ٹی وی چئنلز پر لائیو رد عمل دیا۔ اورپھر اسٹوری ڈویلپ ہوتی گئی۔ اسٹوری کے ڈویلپ ہوتے ہوتے ان لوگوں کی خوشی ماند پڑتی گئی، جو کچھ گھنٹے بڑے ہشاس بشاش تھے۔

پی پی کے لوگ بے شک یہ سوال اٹھا رہے ہیں تو بجا اٹھا رہے ہیں کہ کیا کرپشن کے الزامات میں گرفتار کسی اور رہنما کے گھر میں بھی سرِشام نیب نے اس انداز میں چھاپا مارا جیسا کہ سراج درانی کے گھروالوں کو محبوس کیا گیا؟ تمام کابینہ سراج درانی کے گھر کے باہر دھرنا دے کر بیٹھ گئی مگر عورتوں اور ڈاکٹر کو بھی گھر کے اندر جانے سے روک دیا گیا، میں چاہتے ہوئے بھی لوگوں کی اس دلیل کو رد نہیں کر پا رہا کیونکہ بات میں وزن ہے کہ اتنی طاقت نیب کے پاس نہیں، چارجنگ کہیں اور سے آ رہی ہے۔

نیب اور دیگر اداروں کو ہم دیکھ چکے ہیں، کے پی اور پنجاب میں تو گرفتاریاں نہیں ہوتیں، اگر پنجاب میں گرفتاریاں ہوئی بھی ہیں تو شاہانہ انداز میں، مگر یہاں پر کی گئی تذلیل ملزمان کے لئے لوگوں کے دلوں میں ہمدردی کا باعث بن رہی ہے۔

وزیراعظم اور ان کی بہن کی تو بات کرنا بھی شاید گناہ کبیرہ ہے، چوہدری پرویز الہی کے خلاف انکوائری بند ہوئی تو کیا ہوا؟ بابر اعوان کے خلاف ریفرنس داخل ہونے کے باوجود گرفتاری نہیں ہوئی تو بھی خیر ہی ہے، وزیردفاع اور وزیراعلیٰ کے پی کا بھی کوئی نام نہیں لیا جاتا تو کیا انہوں نے بلاول کی طرح قسم کھائی کہ وہ بے قصور ہیں؟

ہم خیابانِ سحر میں لگی لانڈری کو بھی دیکھ چکے ہیں، جہاں سے اچھے اچھوں کے داغ دھل گئے، گو کہ اب اس لانڈری میں نہ پانی بچاہے نہ ڈٹرجنٹ پاؤڈر تاہم ان دھوبیوں سے ابھی تک نہیں پوچھا گیا کہ بلدیہ کی فیکٹری میں شکار کس طرح کھیلا گیا؟ سندھ میں نیب کی ایک انکوائری سراج درانی کے رشتہ دار کے خلاف بھی شروع ہوئی تھی مگر وہ حکومتی اتحادی ہوتے ہوئے گرفتاری جیسی کارروائی سے محفوظ ہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں، لیکن حیرت ہے کہ سندھ کے جولوگ کرپٹ لوگوں کے خلاف کارروائی پر خوش ہورہے تھے، ان کو بھی مایوس کر دیا، ایسا تو نہیں کرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).