براہِ کرم مجھے کنوارہ ہی رہنے دیں


وہ شادی ہال میں داخل ہوا تو کئی نگاہیں اس کی طرف اٹھیں، خوش لباس تھا اور اچھا خاصا پر کشش آدمی تھا۔ میں اور ڈاکٹر شیخ فیملیز کے ساتھ اس تقریب میں آئے تھے اور ایک ہی ٹیبل پر تھے۔ ابھی میں اس شخص کی شخصیت پر غور کر ہی رہا تھا کہ اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے ہاتھ ہلایا اور میری طرف بڑھنے لگا۔ قریب آیا تو ڈاکٹر شیخ اٹھے اور اسے گلے لگا لیا۔ تب اندازہ ہوا کہ اس نے شیخ صاحب کو دیکھ کر ہاتھ ہلایا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی مسز کا تعارف کرایا۔ پھر میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

”یہ میرے انتہائی قریبی دوست ہیں اور یہ ان کی اہلیہ ہیں۔ “ سلام و دعا کا مرحلہ طے ہوا تو ہم نے انہیں اپنے ساتھ بیٹھنے کی دعوت دی کیونکہ دو کرسیاں خالی تھیں۔ وہ شکریہ ادا کر کے بیٹھ گئے۔ ”ان کا نام احمد کمال ہے اور واقعی کمال کے آدمی ہیں۔ میں جب لاہور میں ہوتا تھا تب ان سے واقفیت ہوئی لیکن پھر ملاقاتوں میں تعطل آ گیا۔ اب اس شادی میں تین چار برس کے بعد ملاقات ہو رہی ہے۔ “ ڈاکٹر شیخ نے اس شخص کا تعارف کراتے ہوئے کہا۔

”آپ اکیلے ہی آئے ہیں آپ کی مسز ساتھ نہیں آئیں؟ “ میری بیوی نے سوال کیا۔

”آہ! یہی وہ سوال ہے جس کا جواب دیتے دیتے میں تھک سا گیا ہوں۔ “ کمال نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔

” اوہ تو کیا آپ کی بیوی کا انتقال ہو چکا ہے؟ “ میں نے افسوس کے انداز میں پوچھا۔ ”یار پہلے اس کی بات تو سن لو، کمال نے اب تک شادی نہیں کی۔ “ ڈاکٹر شیخ نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔ ”اچھا! تو پھر کیا ہوا سنا ہے شادیوں کی تقریبات میں کئی شادیاں طے ہو جاتی ہیں، شاید آج ان کی قسمت کا ستارہ چمک جائے۔ “ میں نے کہا۔ احمد کمال کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔

”سر میں آج تک سمجھ نہیں پایا کہ شادی کرنے کا قسمت کے ستارے سے کیا تعلق ہے۔ میری قسمت کا ستارہ تو عروج پر ہے۔ میں صحت مند ہوں، اپنی مرضی سے زندگی بسر کر رہا ہوں، وراثت میں ملنے والی جائیداد اتنی ہے کہ کوئی کام کرنے کی بھی ضرورت نہیں، مجھے سیاحت کا شوق ہے، ملک ملک گھومتا ہوں اور انجوائے کرتا ہوں اور کیا چاہیے۔ “

”بہت خوب تو سیر و سیاحت میں آپ کیا کرتے ہیں؟ “ میں نے پوچھا۔ ”فطرت کے حسن سے لطف اندوز ہوتا ہوں، کبھی کسی جھیل کے کنارے بیٹھ کر کبھی بلند و بالا پہاڑوں پر اور کبھی کسی ساحل پر لہریں گنتے ہوئے میں اپنی تنہائی سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔ مجھے اپنے ساتھ وقت گزارنا اچھا لگتا ہے۔ بعض اوقات میں اپنی تنہائی میں کسی کو شریک کرتا ہوں میرے چند دوست ہیں وڈکا، وہسکی اور ریڈ وائن میں ان کی رفاقت سے بھی حظ اٹھاتا ہوں۔ “

مجھے اس شخص کی باتوں میں دلچسپی محسوس ہو رہی تھی۔ میں بڑے غور سے اس کو دیکھ رہا تھا۔ وہ مجھے کسی اور ہی دنیا کا فرد معلوم ہو رہا تھا۔ اس کے چہرے پر ذہنی تناؤ کی کوئی علامت دکھائی نہ دیتی تھی، بڑا مطمئن نظر آ رہا تھا۔

”لیکن آپ کی عمر چالیس سے تو زیادہ ہو گی، اتنے عرصے میں کوئی لڑکی آپ کو اچھی نہیں لگی؟ کوئی ہم مزاج نہیں ملی؟ “ میں نے پوچھا۔

وہ مسکرایا۔ میں پینتالیس برس کا ہوں۔ شاید آپ گھما پھرا کر وہ پوچھنا چاہتے ہیں جو میرے شناسا مجھ سے پوچھتے ہیں۔ انہیں یقین نہیں آتا کہ میں اپنی مرضی سے غیر شادی شدہ کیوں رہنا چاہتا ہوں۔ چند ایک نے دبے لفظوں میں مجھے علاج کرانے کا بھی مشورہ دیا۔ ایک صاحب تو ایک حکیم کا نمبر بھی لے آئے تھے۔ میں ایسی باتوں پر ہنس دیتا ہوں۔ میرا کوئی میڈیکل ایشو بھی نہیں ہے۔ نہ جانے کیوں ہمارے ہاں لوگ کسی کی شادی نہ کرنے پر اس سے بھی زیادہ کیوں پریشان ہوتے ہیں، بھئی یہ میرا مسئلہ ہے آپ کو کیا؟ دوسری بات یہ کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ مجھے صنف مخالف سے دلچسپی نہیں ہے۔ میری کئی لڑکیوں سے دوستی ہے اور آپ نے ہم مزاج کی بات کی ہے تو ایک ایسی لڑکی بھی ہے جو حقیقتاً میری ہم مزاج ہے اور میری سب سے گہری دوست ہے لیکن میں اس سے شادی کیسے کر سکتا ہوں وہ تو میری ہم مزاج ہے اور ہم دونوں کے مزاج میں شادی کی گنجائش نہیں ہے۔

اوہ تو یہ بات ہے۔ خیر میرا مطلب کچھ اور تھا میں آپ کے بارے میں کچھ اور جاننا چاہتا ہوں۔ میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔

اب اور کیا بتاؤں یہاں غیر شادی شدہ رہنا کتنا مشکل ہے۔ میرا تو خیر کافی تجربہ ہے لیکن کنوارے نوجوان کو تو کوئی کرائے پر مکان دینے پر رضا مند نہیں ہوتا۔ ریسٹورانٹ میں، پارکوں میں، تفریح گاہوں میں، تقریبات میں لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں۔ رشتہ داروں میں بیٹھے ہوں تو شادی کا تذکرہ چھیڑ دیتے ہیں، رشتے دکھائے جاتے ہیں۔ جب کہ اگر کوئی اپنی مرضی سے زندگی گزارنا چاہتا ہے تو کسی کا کیا جاتا ہے۔

”یعنی آپ کسی آزاد پنچھی کی طرح کھلی ہواؤں میں اڑتے رہنا چاہتے ہیں۔ “ میں نے سر ہلایا۔

”دیکھئیے ناں مجھ سے کوئی دن بھر کی رپورٹ تو طلب نہیں کرتا۔ کوئی میرے وٹس ایپ اور فیس بک اکاؤنٹ کی جاسوسی نہیں کرتا۔ میں باہر جاؤں تو کوئی فون نہیں کرتا کہ واپسی پر دہی لیتے آنا۔ “ کمال صاحب نے شوخ ہوتے ہوئے کہا۔

”تو اس کا مطلب ہے آپ کے لئے رشتہ ڈھونڈنے کا تکلف نہ کیا جائے؟ “ میں نے بھی شوخ انداز اختیار کیا۔
”قطعاً نہیں، براہِ کرم مجھے کنوارہ ہی رہنے دیں۔ میں ایسے ہی بہت خوش ہوں۔ “ احمد کمال نے ہاتھ جوڑ دیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).