شرط – انتون چیخوف کی ایک کہانی


بینکر روحانی اذیت میں مبتلا، پنجرے میں بند جنگلی جانور کی طرح، ڈرائنگ روم کے اس کونے سے اس کونے تک جاتا۔ پائپ کے کش لگاتا اور پھر قد آدم آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر اپنے آپ کو دیکھتا۔

ان پندرہ سالوں میں وہ کافی بوڑھا ہو چکا تھا۔ صحت جواب دے چکی تھی۔ پندرہ سال پہلے والی دولت کی ریل پیل جا چکی تھی۔ سٹہ کھیلنے میں اس کا سرمایہ ختم ہو چکا تھا۔ اب بیس لاکھ روبل کے نقصان کا تصور بھی اس کے لئے نا قابل برداشت تھا۔

وہ سوچ رہا تھا کہ کل رات بارہ بجے وہ شرط ہار جائے گا۔ وکیل آزاد ہو جائے گا۔ اور اپنے بیس لاکھ روبل کا مطالبہ کرے گا۔ اگر یہ رقم نکل گئی تو اس کے پاس کچھ بھی نہ رہے گا۔ اب تو شاید اس کا اپنا پرانا بینک بھی اس کو قرضہ نہ دے۔ اسے اپنا مکان بیچنا پڑے گا۔ فاقوں کی نوبت آ جائے گی۔

بینکر پاگلوں کی طرح خود کلامی میں مصروف تھا۔ نہیں نہیں میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ میں یہ غربت برداشت نہیں کر سکوں گا۔ اور غربت سے بھی زیادہ تکلیف دہ یہ بات ہو گی کہ میری حالت کو دیکھ کر وکیل میری مدد کرنے کی پیشکش کرے گا۔ میں یہ تذلیل نہیں سہہ سکتا۔ نہیں، ہر گزنہیں، اس کا بس ایک ہی علاج ہے۔ اس آدمی کی موت۔

دیوار پر لگی گھڑی نے رات کے تین کا گجر بجایا۔ گھر میں سناٹا تھا۔ ہر سو خاموشی تھی۔ کانپتے ہاتھوں سے بینکر نے فولادی تجوری کھولی۔ اس میں سے گولیوں سے لدا ایک پستول نکالا۔ وکیل کے کمرے کی چابی نکالی اور تجوری کو بند کرکے کوٹھری کی طرف چلا۔

سردی کے باوجود وہ پسینے میں شرابور تھا۔ اس نے زنگ آلود تالے میں چابی لگائی اور چند جھٹکوں کے بعد تالہ ایک کڑکڑاہٹ کے ساتھ کھلا۔

قیدی کا بستر خالی تھا۔ ایک میز پر لالٹین جل رہی تھی۔ جس کی روشنی میں پچیس سال کے خوبرو نوجوان کی جگہ ایک ڈھانچہ سا کرسی پر بیٹھا دکھائی دیا۔ اس کے بال سفید ہو چکے تھے۔ چہرے کی سوکھی ہڈیوں پر کھال چمٹی ہوئی تھی۔ آنکھیں بند اوردھنسی ہوئی تھیں۔ وکیل بیٹھے بیٹھے غافل سو رہا تھا۔ یقین کرنا ناممکن تھا کہ اس بوڑھے آدمی کی عمر صرف چالیس سال ہے۔ بینکر نے اس کا گلا دبانے کے لئے دونوں ہاتھ اٹھائے۔ اچانک اس کی نظر میز پر پڑے ایک کھلے کاغذ پر پڑی جس پر بڑی خوش خطی سے کچھ تحریر تھا۔ بینکر نے لالٹین کی روشنی میں وہ کاغذ پڑھنا شروع کیا۔ اس پر لکھا تھا۔

میرے عزیز جیلر،

آج رات کو بارہ بجے میں آزاد ہوجاؤں گا۔ بیس لاکھ روبل میرے ہوں گے۔ لیکن آزاد ہونے سے پہلے میں تم سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے اس کال کوٹھری میں پندرہ سال گزارے ہیں۔ ان پندرہ سالوں میں میری صحبت دنیا کی عظیم ترین ہستیوں کے ساتھ رہی۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ سب سے بڑی بات یہ سیکھی کہ تمھاری یہ دنیاوی آسائشیں سوائے ایک دھوکے اور فریب کے اور کچھ بھی نہیں۔ جو آزادی مجھے ملنے والی ہے مجھے اس سے نفرت ہے۔ مجھے زندگی سے نفرت ہے۔ مجھے ہر اس چیز سے نفرت ہے جسے تم جیسے انسان کامیابی کی نشانی سمجھتے ہیں۔ اگرچہ پندرہ سال میرا دنیا سے کوئی رابطہ نہیں رہا لیکن میں نے دنیا کے بارے میں کتابوں سے وہ کچھ سیکھا جو تم جیسے کھوکھلے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتا۔

ان کتابوں کے طفیل میں نے اپنی ایک الگ دنیا بسائی۔ میں نے ہمالیہ کی چوٹیوں کو سر کیا۔ افریقہ کے ریگستان عبور کیے ، کتابوں کی اس دنیا میں مجھے حسن ملا، پیار ملا، سکون ملا، حسینوں اور دانش مندوں کی صحبت ملی۔ تمھاری کتابوں کے طفیل میں نے خدا کو پہچانا۔ اپنے آپ سے آگاہی ہوئی۔ تم ایک سراب کا تعاقب کرنے میں اپنی زندگی صرف کر دیتے ہو اور موت تم سے وہ سب چھین کر لے جاتی ہے۔ میں ان تمام آرزوؤں سے ماورا ہو چکا ہوں۔ مجھے تمھاری دنیا نہیں چاہیے، مجھے تمھاری آسائشیں نہیں چاہئیں۔ مجھے تمھارے بیس لاکھ نہیں چاہئیں۔

اور صرف تمہیں اس بات کا ثبوت فراہم کرنے کے لئے کہ میں تمہارے ان بیس لاکھ روبل کو رد کرتا ہوں اور بقائم ہوش و حواس ان سے دست بردار ہوتا ہوں، میں کل رات بارہ بجنے سے کچھ گھنٹے پہلے یہاں سے فرار ہو جاؤں گا۔ تاکہ میں یہ جیتی ہوئی شرط خود ہی ہار جاؤں۔

جذبات کی یورش میں گھرے ہوئے بینکر نے ہڈیوں کے اس ڈھانچے کو انتہائی احترام سے دیکھا، اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور خط کو اسی طرح واپس رکھ کر کوٹھری کے دروازے میں دوبارہ تالا لگا دیا۔ گھر آتے ہوئے بینکر زاروقطار رو رہا تھا۔ اتنے آنسو تو اس نے اپنی اس وقت بھی نہیں بہائے تھے جب وہ سٹے میں اپنی دولت لٹا بیٹھا تھا۔ گھر واپس آ کر اس نے کوشش کی کہ سو جائے لیکن جذبات کے تلاطم نے اسے بے قرار کیے رکھا۔

رات کے دس بجے کے قریب کسی نے زور زور سے اس کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ گھبرایا ہو ا چوکیدار سامنے کھڑا تھا۔

حضور۔ قیدی فرار ہو گیا ہے۔ وہ کھڑکی پھلانگ کر، پائیں باغ سے ہوتا ہواحویلی کے بڑے پھاٹک سے باہر چلا گیا ہے۔

بینکر نوکروں کو لے کر کوٹھری میں گیا۔ تالا کھولا اور دیکھا کہ رات والا خط اسی طرح میز پر رکھا تھا۔ نوکروں سے نظر بچا کر بینکر نے وہ خط اٹھا لیا جس میں قیدی نے بیس لاکھ روبل کو ٹھکرا دیا تھا۔

گھر واپس پہنچتے ہی بینکر نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اس خط کوپستول کے ساتھ اپنی فولادی تجوری میں بند کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2