یادوں کا سلسلہ نکلا


نام آیا تو پھر باتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ اتنی بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں جو شاید ایک بڑی روغنی تصویر کی تفصیلات ہیں، اپنی جگہ غیراہم مگر شام پڑے پرندوں کی طرح شور مچاتی ہیں، اپنے درخت پر واپس آنا چاہتی ہیں۔ ان کے شور سے خاموشی ٹوٹ جاتی ہے اور منظر کی یکسانیت بھی۔

یوں ہی بیٹھے بٹھائے یاد آیا۔ سات آٹھ سال پہلے کی بات ہوگی، یا اس سے بھی زیادہ پرانی۔ کسی نجی ٹی وی چینل، غالباً اے آر وائی نے فہمیدہ ریاض کے لیے خراجِ تحسین یعنی ٹی وی والوں کی اس وقت کی زبان میں ٹری بیوٹ ٹو اے لیجنڈ کا اہتمام کیا۔ گفتگو کے شرکاء کو شہر کے دور دراز علاقے میں قائم اسٹوڈیو میں لے جایا گیا اور اسٹیج کے پیچھے بٹھا دیا گیا، جہاں فہمیدہ ریاض کو آنا تھا۔ ان کو نہیں بتایا گیا کہ ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان کے کون سے دوست اور واقف کار اس وقت سامنے آئیں گے۔ یوں اس کو ’’سرپرائز‘‘ قرار دیا گیا۔ ان میں فاطمہ حسن بھی شامل تھیں اور دو ایک نام بالکل توّقع کے عین مطابق تھے مگر میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ فہمیدہ ریاض کو خراج عقیدت دینے کے لیے معروف ہدایت کارہ اور اداکارہ سنگیتا بھی بیٹھی ہوئی ہیں۔

ان کی اداکاری سے زیادہ میں ان کی ہدایت میں بننے والی فلم ’’مٹّھی بھر چاول‘‘ کا مداح ہوں۔ راجندر سنگھ بیدی کے عمدہ ناول پر مبنی یہ فلم نہ صرف اسی ناول پر بننے والی ہندوستانی فلم سے زیادہ اپنے ماحول میں رچی بسی معلوم ہوتی ہے بلکہ اسے پاکستان کی بہترین فلموں میں سے ایک قرار دینا غلط نہ ہوگا۔ ’’آپ یہاں کیسے؟‘‘ میں نے اس فلم کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرنے کے بعد ان سے پوچھا۔ باتیں ہوتی رہیں تو سنگیتا نے اردو ادب سے اپنی دل چسپی اور کراچی کے محلّے ناظم آباد میں گزرے ہوئے بچپن کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا۔

اسٹیج پر جانے کے بعد انھوں نے تفصیل سے بتایا کہ ان کے کیریئر کا آغاز تھا۔ فلموں میں کام کرنے کا موقع نہیں ملا تھا اور اشتہار اس وقت ایک نیا ذریعہ بن کر اہمیت حاصل کررہے تھے۔ فہمیدہ ریاض لندن سے فلم بنانے کی تربیت لے کر کراچی آئی تھیں اور ایک اشتہار ساز ادارے میں کام کرنے لگی تھیں۔ نوعمر سنگیتا پر فلمایا جانے والا اشتہار فہمیدہ کے ذہن کی اختراع تھا جس میں سنگیتا بال کھولے، گھوڑے کی پیٹھ پر سوار، سمندر کنارے موجوں کے ساتھ ساتھ اُڑتی ہوئی چلی آتی ہیں۔ مجھے یہ اشتہار آج بھی یاد ہے۔ فلم بندی کی تکنیک بہت نفیس اور پیچیدہ ہوچکی ہے مگر اس اشتہار میں ایک عجیب دل کشی تھی__ موسیقی کی لے تیز ہوتی ہے، لہریں اٹھتی ہیں اور ان کے سامنے سے سنگیتا گھوڑا دوڑاتی ہوئی آتی ہیں کہ کھُلے بال ہوا میں لہرا رہے ہیں، وہ آگے بڑھتی جاتی ہیں یہاں تک کہ کیمرے کے پیچھے سے فہمیدہ ریاض پکار اٹھتی ہیں، ’’کٹ!‘‘ پھر پورا منظر ڈزالو ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ فہمیدہ بھی۔

اسٹیج پر ایک بار پھر تاریکی چھا گئی ہے اور ناظرین کی تالیاں ختم ہوچکی ہیں۔

پھر مجھے فہمیدہ ریاض کی آواز سنائی دیتی ہے۔ ایسی آواز جسے ہزاروں دوسری آوازوں سے الگ پہچانا جا سکتا تھا۔

پہلے پہل ان سے بات کرنے والوں کو لگتا تھا کہ وہ شاید دانت بھینچ کر بول رہی ہیں۔ مگر ان کے لہجے میں ایک ہلکا سا لہریہ تھا جو ایک نسل پہلے تک دور دراز سے کراچی آنے والے زبیری گھرانوں میں الگ سے سنائی دے جاتا تھا۔ ان کے لہجے میں ہلکا سا lilt تھا۔ اس کو پہچانتے ہوئے میرا ایک دوست، جو مجھ سے بڑھ کر فہمیدہ ریاض کا چاہنے اور ماننے والا تھا، ان کی بڑی کامیاب نقل کرتے ہوئے ان کے سامنے ہی مجھ سے اس لہجے میں بات کرتا__ ’’بھئی دیکھو، بات دراصل یہ ہے۔۔۔‘‘ فہمیدہ ریاض ہنسنے لگتی تھیں۔ وہ اس دوست کو ’’خرگوش‘‘ کہا کرتی تھیں کیوں کہ وہ ٹک کر نہیں بیٹھتا تھا، ایک جگہ سے پھدک کر دوسری جگہ پہنچ جاتا اور پھر آگے۔۔۔ ’’ارے خرگوش!۔۔۔‘‘ فہمیدہ اس کو ہنس ہنس کر پکارا کرتی تھیں۔

گھبراہٹ اور بے چینی تو فہمیدہ کے اپنے مزاج میں بھی بہت تھی۔ صرف یہ بات نہیں کہ مزاج سیمابی تھا بلکہ ایک خوف ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہتا تھا۔ جیسے کوئی دبے پائوں پیچھے پیچھے آرہا ہے، پرچھائیوں میں دبک کر چلتا ہوا۔ وہ کہیں بھی اکیلے جانے سے گھبراتی تھیں اور کسی نہ کسی کو ان کے ساتھ جانا پڑتا کیونکہ وہ بہت اصرار کرتی تھیں۔ اب میں سوچتا ہوں کہ شاید یہ حکومتِ وقت کی طرف سے نگرانی کا شاخسانہ ہو جو ان کے اندرpersecution  کا مستقل احساس پیدا کرگیا جو کسی طرح مندمل نہیں ہوتا تھا لیکن اس وقت ہم ایسے مداحوں کو آزمائش میں مبتلا کر دینے کے لیے کافی تھا۔

’’تم مجھے لے کر میرے ساتھ چلو۔۔۔‘‘ ان کو کسی بھی محفل میں مدعو کرتا تو جانے سے پہلے مجھ سے شرط رکھ دیتی تھیں اور اس عذر کو ماننے کے لیے بھی تیار نہ ہوتی تھیں کہ ان کے گھر تک آنا out of the way پڑ سکتا ہے۔ کراچی میں فاصلوں کو کسی طرح سنبھالنا ممکن ہو سکتا ہے مگر جرمنی کے ایک سفر میں بھی ان کا مطالبہ یہی تھا کہ جہاں جا رہے ہو، مجھے ساتھ لے کر جائو۔ برلن میں انتظار صاحب کا آزادی سے گھومنے کا ارادہ تھا اس لیے بڑی ترکیب لڑانے کے بعد ہم نے فہمیدہ ریاض کو چکمہ دیا اور ان کی آنکھ بچا کر نکل کھڑے ہوئے۔ شام کو واپس آئے تو دیکھا ہوٹل کی لابی میں بیٹھی ہوئی فہمیدہ ریاض کافی پی رہی ہیں۔ ’’کہاں رہے تم لوگ؟‘‘ انھوں نے چھوٹتے ہی سوال کیا، جیسے مجھے چوری کرتے ہوئے پکڑ لیا ہو۔

میرے دیکھتے ہی دیکھتے انتظار صاحب سے فہمیدہ ریاض کی عقیدت بڑھنے لگی۔ انھوں نے اس دوران انتظار صاحب کو پڑھنا بھی شروع کردیا تھا۔ ایک دن انھوں نے انکشاف کرکے سب کو حیران کر دیا کہ اس سے پہلے انتظار صاحب کی کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی۔ طالب علمی کے دور میں بھی نہیں کیونکہ ان کے نظریاتی دوست ایسی کتابیں پڑھنے سے روک دیتے تھے۔ اس وقت کی بات دل میں گرہ سی باندھ گئی۔ پھر جب اپنے طور پر پڑھ کر دیکھا تو مزہ آیا۔ انتظار صاحب کی شخصیت ان کو موہنی سی معلوم ہوتی تھی اور انتظار صاحب بھی ان کو دیکھ کر جیسے کھل اٹھتے تھے۔ ان کی باتوں سے بہت لطف اندوز ہوتے تھے۔ انتظار صاحب کی بیماری کی خبر سُن کر فہمیدہ ریاض نے جو فقرے فیس بک پر لکھے وہ بھلائے نہیں بھولتے۔ فہمیدہ کا صدمہ بہت گہرا تھا۔ ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی وہ ان کو برابر یاد کیے جاتی تھیں۔ انتظار صاحب کے بغیر دنیا میں ایسی کمی ہوگئی تھی جو کسی اور طرح سے بھر کے نہ دیتی تھی۔

خوش گوار باتیں کس مقام پر پہنچ کر تکلیف دہ ہونے لگتی ہیں، فہمیدہ کے ساتھ اس حد فاصل کا امتیاز رکھنا ممکن نہیں تھا۔ ہنسی مذاق اپنی جگہ، میں نے ان کو گفتگو میں کج بحثی پر اُترتے ہوئے اور غصّے میں آگ بگولا ہوتے بھی دیکھا ہے۔ پتہ نہیں میں کیسے بچ گیا، ورنہ وہ اکثر دوستوں سے لڑ پڑتی تھیں۔ پھر روٹھ کر من بھی جاتی تھیں۔ ادبی معاملات میں وہ اپنی رائے پر اڑ جاتی تھیں اور ٹس سے مس ہونے پر تیار نہ ہوتی تھیں۔ لاہور میں فیض گھر کے حوالے سے جشن فیض کی تقریب بہت سے لوگوں کو یاد ہوگی جس میں صدارتی خطبہ جناب شمس الرحمٰن فاروقی نے دیا جو بطور خاص ہندوستان سے تشریف لائے تھے۔ فاروقی صاحب کا یہ خطبہ شائع بھی ہوچکا ہے اور فیض کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر واضح تھا۔ فاروقی صاحب کے خطبے کے بعد فہمیدہ ریاض سوال کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں اور جوابی تقریر شروع کر دی جو اتنی جارحانہ ہوتی گئی کہ ان کو چُپ کروانا مشکل ہوگیا۔ فاروقی صاحب خود ہی چُپ ہوگئے۔

نیویارک کی ایک ادبی محفل میں، مَیں نے ان کو فرانسس پریچٹ سے الجھتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ محمد حسین آزاد سے بات شروع ہوئی اور فہمیدہ ریاض نے ان کے لتّے لے ڈالے۔ ہائیڈل برگ میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں ایک مقالہ نگار نے پروین شاکر پر مضمون پڑھا اور ان کی ابتدائی شاعری پر فہمیدہ ریاض کے اثرات کا ذکر کیا۔ فہمیدہ ریاض وہیں بھڑک اٹھیں اور مقالہ نگار سے گزر کر مقالے کے موضوع تک کو لتاڑ ڈالا۔ ادبی بحث میں چُپ ہوتے فہمیدہ ریاض کو میں نے ایک ہی موقع پر دیکھا ہے۔ تقریب انھوں نے خود کروائی تھی اور عصمت چغتائی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہاجرہ مسرور کی صدارت رکھی تھی۔ مگر قاسمی صاحب کے بارے میں شکوک اور تحفّظات کا اظہار بھی کر دیا۔  صدارتی تقریر میں احمد ندیم قاسمی کا نام سیہی کا کانٹا بن گیا۔ اس حوالے سے انھوں نے خوب سنائیں اور فہمیدہ ریاض کان دبا کر سنتی رہیں۔ مگر تیر نشانے پر لگ چکا تھا۔

کم سے کم دو مرتبہ فہمیدہ ریاض کو بڑی تندہی سے لڑتے بھی دیکھا ہے۔ وہ اپنے موقف پر ڈٹ گئیں اور مخالف پر وار کرنے شروع کر دیے، اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ صاحب خانہ کی محفل کا پورا تاثر برباد ہوا جا رہا ہے۔ ایک مرتبہ تو قریب تھا کہ وہ گتھّم گتّھا ہوجائیں اور مدمقابل خاتون بھی مُنھ در مُنھ سنانے سے باز نہ آرہی تھیں۔ تھوڑے دنوں کے بعد ان خاتون کو اسلام آباد کی ایک محفل میں فہمیدہ ریاض کے ساتھ شریک ہوتے بھی دیکھا۔ یعنی وہ بھی دیکھا اور یہ بھی دیکھ لیا۔ دونوں رنگ جُدا جُدا لیکن مرکز ایک۔

اسی طرح فہمیدہ ریاض خوش بھی بہت جلدی ہو جاتی تھیں۔ کئی مرتبہ ایسے شعری مجموعوں پر توصیفی کلمات لکھ دیتی تھیں جن میں شاعری معمولی درجے کی ہوتی تھی۔ ’’ارے بھئی، اتنی اچھی تو ہے۔۔۔‘‘ میں اعتراض کرتا تو وہ دفاع پر اتر آتی تھیں۔ لیکن ظاہر ہے، ان سے بحث کرنا بے کار تھا۔ مجموعہ چھپ گیا مع فہمیدہ ریاض کی توصیفی رائے کے۔ اور یہ حادثہ نہیں تھا، تواتر کے ساتھ ایسا ہوتا رہتا تھا۔

اپنے عزیز دوست حارث خلیق کی طرح میں ان کو کبھی فہمیدہ آپا نہ کہہ سکا۔ وہ فہمیدہ ہی رہیں۔ اب سوچتا ہوں وہ میرے لیے کیا تھیں__ دوست، رفیق، قابل احترام شاعر، بڑی بہن، مہربان، مخالف، غم گسار اور غم آشنا ’’مادر خداوندی، آدمی کی محبوبہ۔‘‘۔۔۔ زندگی کے غم اور محبت میں شریک۔۔۔ پہلے بہت ہنسی، اس کے بعد بے اندازہ آنسوئوں کا منبع۔۔۔ اب یادوں کا ایک سلسلہ جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).