آغا سراج اور پاکستان کا قومی ترانہ


آغا سراج کا قومی ترانہ سے ملاپ کیسے ممکن ہے عنوان پڑھ کر یہ سوال پڑھنے والوں کے ذہن میں ضرور پیدا ہوگا اور بھی چاہیے، اس عنوان کے خالق دراصل پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ ہیں، جنہوں نے اکیس فروری دو ہزار انیس کو قومی اسمبلی میں آغا سراج کی گرفتاری کے خلاف جذباتی خطاب کرتے ہوئے یہ حوالہ دیاکہ سندھ اسمبلی وہ اسمبلی ہے جہاں پاکستان کا قومی ترانہ سنایا گیا۔

پہلی بات تو یہ کہ اس وقت سندھ اسمبلی این جے وی اسکول (نارائن جگناتھ ودیا اسکول) میں منتقل ہو چکی تھی اور سندھ اسمبلی کو قومی اسمبلی کا درجہ حاصل تھا، اور ایک بات اور کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے سات برس بعد تک پاکستان کا کوئی قومی ترانہ نہ تھا، آگے چل کر اس کی تفصیل آپ کو بتاتے ہیں پہلے خورشید شاہ کے خطاب کا ذکر کرتے ہیں۔

انھوں اپنے خطاب میں اسپیکر سندھ اسمبلی کی گرفتاری کو سندھ اسمبلی کی توہین قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے کہا کہ اس سندھ اسمبلی کے اسپیکر کو گرفتار کیا گیا ہے جو پاکستان کی بانی ہے اس اسمبلی میں پہلی بار پاکستان کا جھنڈا لہرایا گیا، آپ نے آج جو پارلیمنٹ میں قومی ترانہ بجایا ہے سندھ اسمبلی میں یہ سب سے پہلے سنایا گیا آپ ستر سال سندھ اسمبلی سے پیچھے ہیں۔ آج ستر سال بعد ایک نئی روایت ڈالی گئی ہے جو قابل مذمت ہے۔

آئیے اب قومی ترانہ کی جانب چلتے ہیں، ایک اہم بات یہ ہے کہ ترانہ لکھنے سے پہلے اس کی دھن محمد علی چھاگلہ نے بنائی تھی۔ جمیل زبیری اپنی کتاب ”یاد خزانہ ریڈیو پاکستان میں 25 سال“ کے صفحہ نمبر 21 پر قومی ترانہ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ:

”جب چھاگلہ کی بنائی ہوئی دھن ریڈیو پاکستان میں اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل زیڈ اے بخاری نے سنی تو انہوں سب سے پہلے نہال عبداللہ کمپوزر وغیرہ کو بٹھا کر اس دھن کو موسیقی کی زبان میں ’بانٹا‘ اور پھر اس پر سب سے پہلے ترانے کے بول لکھے۔ اسی دوران میں حفیظ جالندھری اور دیگر شعراء کے لکھے ہوئے ترانے موصول ہو گئے۔ سارے ترانے کمیٹی کے سامنے رکھے گئے اور کمیٹی نے حفیظ جالندھری کے ترانے کو منظور کرلیا۔

”کہتے ہیں کہ بخاری اس پر کافی ناراض ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے انہوں نے ترانہ لکھا۔ بہرحال کمیٹی کا فیصلہ حتمی تھا۔ اس کے بعد ریڈیو پاکستان کے انگریزی پروگراموں کی سپروائزرمسز فیلڈبرگ (Feld Berg) نے اس کی orchestration کرنے اور notation تیار کرنے کے لیے لندن بھیج دیا۔ جب یہ چیزیں تیار ہوکر ترانہ واپس آیا تو ریڈیو پاکستان میں اس کی رکارڈنگ ڈائریکٹر جنرل بخاری او ر حمید نسیم نے مل کر کی۔ گانے والوں میں نہال عبداللہ، دائم حسین، نظیر بیگم، تنویر جہاں، کوکب جہاں، اور چند دیگر فنکار شامل تھے۔ اس طرح ریڈیو پاکستان نے ملک کا قومی ترانہ تیار کیا۔ “

” 14 اگست 1954 ء کو کابینہ کا ایک اور اجلاس منعقد ہوا جس میں حفیظ جالندھری کے لکھے گئے ترانے کو بغیر کسی ردوبدل کے منظور کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ اس اجلاس میں کابینہ نے یہ فیصلہ بھی دیا کہ اس ترانہ کی موجودگی میں اردو بنگالی کے دو قومی نغمات کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ “

1960 ء میں امین الرحمان نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ :احمد غلام علی چھاگلہ اس سے پہلے ہمارے پڑھے لکھے موسیقی داں طبقے میں ایک ماہر موسیقی کی حیثیت سے غیر معروف نہ تھے۔ اس تنگ وقت میں جناب چھاگلہ نے صحت کی خرابی کے باوجود شب و روز محنت شاقہ سے کام کیا اور آخرکار پاکستان کے قومی ترانے کے لیے ایک مناسب دھن مرتب کر ہی لی۔ جب شہنشاہ ایران پاکستان تشریف لائے تو ہمارے بحریہ کے بینڈ نے اس ترانے کو شہنشاہ ایران کے استقبال کے موقع پر بجایا، جو اسے سن کر بہت متاثر ہوئے۔ ”

قومی ترانہ کی دھن 1950 ء میں ترتیب دی گئی، لیکن اس قومی ترانے کی منظوری آزادی کے تقریباً سات سال بعد 1954 ء میں ہوئی۔ چھاگلہ صاحب نے یہ دھن بنائی اور بڑی محنت سے بنائی۔ اس کا اندازہ دھن سنتے ہی ہوجاتا ہے۔ لیکن وہ اپنی زندگی میں اس دھن کی منظوری نہ دیکھ سکے اور نہ ہی اس حوالے سے حکومت پاکستان کی جانب سے ان کی اس بے بہا خدمت کا اعتراف کیا گیا۔ ان کی اس خدمت کے صلے کے لیے ان کے خاندان کو تقریباً 46 برس تک انتظار کرنا پڑا۔ گل حسن کلمتی اپنی کتاب ”کراچی کے لافانی کردار“ کے صفحہ نمبر 242 پر لکھتے ہیں کہ:

”آخرکار 43 سال بعد 1996 ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں احمد علی چھاگلہ صاحب کو صدارتی ایوارڈ دینے کا اعلان کیا گیا۔ یہ ایوارڈ چھاگلہ صاحب کے فرزند عبدالخالق چھاگلہ جو کہ امریکی ریاست ہیوسٹن میں مقیم ہیں، انھوں نے واشنگٹن ڈی سی میں 23 مارچ 1997 میں پاکستانی سفارت خانی میں منعقد ہونے والی تقریب میں وصول کیا۔ “ چلیں ”دیر لگی آنے میں تم کو، شکر ہے پھر بھی آئے تو۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).