بنگلہ دیش نامنظور: حوالات میں گزرے دنوں کی یاد


سن 1973 فروری کا مہینہ تھا۔ لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد ہو رہی تھی۔ سارا شہر اھلاً و سھلاً مرحبا کے بینروں سے سجا ہوا تھا۔ 21 فروری کو میں نے یارعزیز جاوید احمد (غامدی) صاحب کے ہمراہ باصر کاظمی کے گھر پر ٹی وی پر سربراہان کے ایرپورٹ پر استقبال کے مناظر دیکھے۔

اگلے روز جمعہ کے دن صبح کے وقت اسلامی سربراہی کانفرنس کا افتتاحی اجلاس اسمبلی ہال میں منعقد ہوا۔ اس کے بعد تمام مہمان بادشاہی مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے روانہ ہوئے۔ ضلع کچہری چوک میں نیو ہوسٹل کے باہر سڑک پر کھڑے ہو کر بہت دیر تک اس قافلے کر گزرتا دیکھتے رہے۔ ٹی وی پر جمعہ کے اس اجتماع کو بہت روح پرور اور ایمان آفریں قرار دیا جا رہا تھا۔ شاہ فیصل کی رقت سے بھری دعا کا بہت شہرہ ہوا تھا۔

اسی دن شام کے وقت وزیر اعظم پاکستان جناب ذوالفقارعلی بھٹو صاحب ٹی وی پر نمودار ہوئے اور بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ میں اس وقت گورنمنٹ کالج کی سٹوڈنٹس یونین کا صدر تھا اور اسلامی جمعیت طلبہ کا حمایتی تھا۔ جمعیت والے جاوید ہاشمی کی قیادت میں 1972 میں بنگلہ دیش نامنظور کی ایک بڑی مہم چلا چکے تھے جس میں کچھ جانوں کا ضیاع بھی ہوا تھا۔

 میں تقریر کے اختتام پر ہوسٹل سے نکل کر جمعیت کے دفتر اچھرہ چلا گیا۔ وہاں پنجاب یونیورسٹی یونین کے صدر فرید پراچہ، سیکریٹری عبدا لشکور وغیرہ موجود تھے۔ معلوم ہوا کہ جاوید ہاشمی گرفتار ہو چکا ہے۔ جاوید ہاشمی ایک طالب علم دوست کے ساتھ مال کے کسی ریسٹورنٹ میں موجود تھا، وہیں اس نے بھٹو صاحب کی تقریر سنی اور وہ مال روڈ پر بنگلہ دیش نامنظور کے نعرے لگاتا اسمبلی ہال کی طرف چل پڑا، فیروز سنز کے سامنے، جہاں سے آگے سڑک بند تھی، پولیس نے اسے گرفتار کر لیا۔ ہمارے سامنے سوال یہ تھا کہ اب کیا کیا جائے۔ ظاہر ہے تحریک چلانے کا کوئی ماحول نہیں تھا اور ایک ہی مسئلے پر دوبارہ تحریک اٹھانا کوئی اتنا آسان کام بھی نہیں ہوتا۔ خاموش رہنا بھی کوئی آپشن نہیں تھا کہ پھر طرح طرح کی باتیں سننا پڑیں گی۔ غرض مسئلہ یہ تھا کہ اب اپنی عزت کو کس طرح بحال رکھا جائے۔ کافی غور و خوض کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ اگلی صبح کالجوں کی یونین کے منتخب عہدیداروں پر مبنی ایک گروہ اسمبلی ہال کے سامنے مظاہرہ کرے اور گرفتاری دے دے۔ کل بارہ تیرہ لوگ تھے۔ چند نام جو مجھے یاد رہ گئے ہیں: فرید پراچہ، عبد الشکور، حافظ عتیق الرحمان ( صدر ہیلی کالج یونین)، ندیم انور(ہیلی کالج یونین)، نعیم سرویا (صدرانجینئرنگ یونیورسٹی)، راجہ شفقت (سیکریٹیری ایف سی کالج یونین) اور یہ خاکسار۔

23 فروری کی صبح ہم لوگ کوئنز روڈ پر واقع جماعت اسلامی کے دفتر میں جمع ہوئے اور بہت دیر تک اس بات پر غور و خوض کرتے رہے کہ مال روڈ پر اسمبلی ہال کے سامنے کس طرح پہنچا جائے کیونکہ چاروں طرف سے راستے بند تھے۔ پہلے پریس کانفرنس کا فیصلہ ہوا، ہم لوگ پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر فرید پراچہ کی قیادت میں لارڈز ریسٹورنٹ پہنچے اور پراچہ صاحب نے صحافیوں سے گفتگو کی۔ میں نے باقی دوستوں سے کہا میں باہر جا کر صورت حال دیکھ کر آتا ہوں کیونکہ میرا چہرہ زیادہ معروف نہیں ہے۔ میں فیروز سنز کے سامنے تک گیا اور واپس آکر بتایا کہ اس طرف سے چیئرنگ کراس تک جانے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اس کے بعد ہم لوگ لارڈز سے نکل کر پھر جماعت اسلامی کے دفتر چلے گئے۔

اتنے میں کسی نے آ کر بتایا کہ کوئنز روڈ سے چڑیا گھر کی طرف جانے والا راستہ کھلا ہے۔ ہم لوگ فوراً اٹھ کر چل دیے۔ اس سڑک سے ہوتے ہوئے ہم واپڈا ہاؤس کے سامنے پہنچ گئے۔ دو تین منٹ تک ہم نے ادھر ادھر کا جائزہ لیا ، اس کے بعد کاغذ پر لکھے ہوئے بینر ہوا میں لہرا کر بنگلہ دیش نامنظور کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ پولیس والوں کی دوڑیں لگ گئیں۔ شروع میں تو ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ وہ ہمیں کہہ رہے تھے آپ سڑک کے بجائے فٹ پاتھ پر آ کر نعرے لگائیں۔ اتنی دیر میں ان کا کوئی سینیر افسر آ گیا، اس نے چلا کر کہا پکڑو ان کو، اور پولیس والوں نے ہمیں دبوچ لیا۔ انھوں نے جلدی سے ہم سات آٹھ افراد کو ایک پولیس ٹرک میں دھکیل دیا۔ وہ ٹرک ہمیں تھانہ سول لائنز لے گیا۔ باقی لوگوں کو ایک جیپ میں ٹھونس دیا۔

تھانے میں ہمیں ایک کمرے میں بٹھا دیا گیا۔ پھر ایک ڈی ایس پی صاحب آئے اور ہمیں کہا آپ مجھے قائل کریں کہ آپ جو کر رہے ہیں وہ درست ہے۔ میں نے کہا میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ جب سردار بھگت سنگھ کا لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ چل رہا تھا تو اس بنچ میں ایک مسلمان جج بھی تھے۔ سردار بھگت سنگھ نے انھیں مخاطب کرکے کہا مجھے پتہ ہے اس مقدمے کا فیصلہ کیا ہوگا۔ میں یہ پسند نہیں کروں گا کہ میری موت کے پروانے پر کوئی ہندوستانی دست خط کرے، اس لیے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اس بنچ سے دست بردار ہو جائیں۔ اس پر اس جج نے استعفا لکھا اور بنچ سے علیحدہ ہو گئے۔ یہ بات سن کر ڈی ایس پی صاحب نے کہا آپ مجھے قائل کر لیں گے تو میں بھی اپنی وردی اتار دوں گا۔ میں نے کہا آپ اگر وردی اتار کر میری بات سنیں گے تو آپ کو میری بات زیادہ معقول دکھائی دے گی۔ اتنے میں حافظ عتیق الرحمان نے مجھے کہنی ماری کہ میں بات کو زیادہ نہ بڑھاوں۔

خیر پولیس والوں کا رویہ ہمارے ساتھ بہت اچھا تھا۔ اس کے بعد اس نے نام پوچھنا شروع کیے۔ ہمارے ساتھ لگ بھگ تیس سال کی عمر کا سیاہ ڈارھی والا ایک شخص بھی بیٹھا ہوا تھا۔ اس کو دیکھ کر ہم سب حیران ہو رہے تھے۔ جب اس سے پوچھا تو اس نے روہانسی آواز میں بتایا وہ طالب علم نہیں بلکہ سیالکوٹ کا ایک دوکاندار ہے جو اسلامی سربراہی کانفرنس دیکھنے لاہور آیا تھا۔ اس کا کہنا تھا یہ لوگ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا رہے تھے تو میں نے بھی نعرہ لگا دیا جس پر پولیس والے مجھے بھی پکڑ کر لے آئے ہیں۔

میں نے ڈی ایس پی صاحب سے کہا میں آپ کو اپنے سب ساتھیوں کے نام بتا دیتا ہوں، مجھے نہیں پتہ ان کو کہاں لے گئے ہیں، لیکن یہ شخص ہمارے ساتھ نہیں تھا۔ آپ اس کو چھوڑ دیں، یہ بے چارہ خواہ مخواہ پھنس گیا ہے، لیکن وہ میری بات نہیں مان رہے تھے بلکہ اس شخص کے منت سماجت کرنے پر اسے مصطفیٰ زیدی کی نظم سنا رہے تھے جس کا ایک مصرع کچھ یوں تھا: ا یک بزدل میرے سینے میں چھپا بیٹھا ہے۔ وہ تین چار روز تک ہمارے ساتھ حوالات میں بند رہا، پھر اس کی رہائی ہوئی۔

شام کے وقت باقی لوگ بھی تھانہ سول لائنز پہنچا دیے گئے۔ ہمارے کوائف کا اندراج کرکے ہمیں حوالات میں بند کر دیا گیا جہاں جاوید ہاشمی اور افضل مرزا پہلے سے موجود تھے۔ کوئی عشا کے وقت پنجاب یونیورسٹی یونین کے نائب صدر مسعود کھوکھر اور حافظ اعجاز احمد، جو کے ای میڈیکل کالج کے سٹوڈنٹ تھے، کو بھی تھانے میں لایا گیا۔ پتہ یہ چلا کہ وہ دونوں فیروز پور روڈ پر بس سٹاپ پر کھڑے تھے کہ پیپلز گارڈ کے لوگ انھیں پکڑ کر تھانے چھوڑ گئے اور اس طرح وہ دنوں بھی گرفتار ہو گئے۔

دو تین روز بعد تحریک استقلال والوں نے بھی تین لوگ گرفتار کروا دیے۔ سٹوڈنٹ لیڈر بشیر بھٹہ کے ساتھ دو اور لوگ بھی تھے، لیکن بعد میں کوئی ان کی خبر لینے نہ آیا، سوائے ایک بار حفیظ خان کے۔

حوالات میں وقت اچھا گزرا۔ سارا دن ملاقاتی آتے رہتے تھے۔ میں نے چھوٹے بھائی کو کہہ کر تاش منگوا لی۔ کچھ لوگ تاش کھیلنے بیٹھ جاتے، جس کو فرید پراچہ صاحب بہت مائنڈ کرتے اور ہمیں منع کرتے کہ اتنے لوگ ملنے آتے ہیں، وہ کیا کہیں گے۔ میرا جواب ہوتا تھا کہ ہم کچھ غلط نہیں کر رہے، بس وقت گزاری کا ایک معصوم سا بہانہ ہے۔

بس ایک بار کچھ ہنگامہ ہوا۔ کھانا ہمارا باہر کسی کینٹین سے آتا تھا۔ اس وقت پولیس والے دروازہ کھول دیتے۔ ایک رات کھانا آیا تو جو پولیس والا ڈیوٹی پر تھا اس نے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا، سالن کی پلیٹ سلاخوں سے گزر نہیں سکتی تھی۔ اس پر جاوید ہاشمی کو طیش آ گیا اور اس نے بلند آواز سے پولیس والوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور کہا لے جاؤ اٹھا کر کھانا، ہم نہیں کھائیں گے۔ اس پر تھانے میں تھرتھلی مچ گئی۔ پولیس والے بھاگے آئے اور جاوید ہاشمی کی منت سماجت کرنے لگے۔ اس کے بعد پولیس والے خود پلیٹیں اٹھا اٹھا کر ہمارے سامنے رکھ رہے تھے۔ خیر جب ہم نے کھانا کھا لیا تو ہاشمی نے مسکراتے ہوئے کہا اب چوبیس گھنٹے یہ بالکل ٹھیک رہیں گے۔

ایک دن یہ فیصلہ ہوا کہ رات کو ایک محفل برپا کی جائے اور مشرقی پاکستان کو یاد کیا جائے۔ ہمارے درمیان جاوید ہاشمی واحد شخص تھا جو آرمی آپریشن کے دوران میں پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے وفد کے ساتھ مشرقی پاکستان کا دورہ کر چکا تھا۔ میں شاعر تو نہیں لیکن اس روز آمد ہوئی اور میں نے ایک نظم بھی لکھی تھی جو اب یاد نہیں رہی۔ محفل کے آخر پر جاوید ہاشمی نے جب وہاں کے حالات بیان کیے تو پہلی بار میرے ذہن میں اس شک نے جنم لیا کہ حالات وہ نہیں تھے جو ہمیں یہاں بتائے جاتے تھے۔ ایک واقعہ مجھے آج بھی دھندلا سا یاد ہے۔ ان کا گائیڈ مشرقی پاکستان کی جمعیت کا ایک بنگالی لڑکا تھا اس نے انھیں بتایا کہ اس کا بہنوئی جو فوج میں تھا، چھٹی پر گھر آیا ہوا تھا۔ ایک دن فوجی گھر میں گھسے، وہ اپنا تعارف کراتا رہا لیکن وہ اس کو گولی مار کر چلے گئے۔ اس کے باوجود وہ ان کا ساتھ دے رہا تھا کہ اس قسم کی صورت حال میں اس طرح کے واقعات ہو جاتے ہیں۔

اب یہ تو یاد نہیں کہ کتنے دن حوالات میں گزارے، لیکن ایک ہفتہ سے کچھ زیادہ دن تھے۔ اس کے بعد ایک دن ہماری ضمانت کے کاغذات آئے، لیکن ہم نے انکار کر دیا کیونکہ بشیر بھٹہ اور اس کے دو ساتھیوں کی ضمانت نہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد وہ لوگ واپس گئے اور کوئی ایک گھنٹہ بعد ان کی ضمانت بھی کروا کر لائے تو ہم لوگ حوالات سے رہا ہو کر روانہ ہوئے۔ بشیر بھٹہ، تحریک استقلال میں شمولیت سے قبل، اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ ہوتے تھے اس لیے رخصت ہوتے وقت میں نے انھیں عزیز دوست باصر کاظمی کا یہ شعر سنایا:

نئے ساتھیوں کی دھن میں تیری دوستی کو چھوڑا

کوئی تجھ سا بھی نہ پایا تیرے شہر سے نکل کے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).