نقشِ فریادی: دیوانِ غالبؔ کے پہلے شعر کی شرح


نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

یہ شعرِ مطلع، سرِ دیوانِ غالبؔ ہے۔ اس میں ”نقش“ کی شِین زیر کے بغیر ہے۔ چوں کہ وزن فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلن ہے، اس لئے بھی بعضے اس شین کو حرکت کے ساتھ پڑھ جاتے ہیں، اور تقطیع میں ایسے ہی ہے۔

”عودِ ہندی“ میں جناب عبد الرزاق شاکرؔ گورکھپوری کے نام غالبؔ کے 10 خطوط نقل ہیں۔ اس کے آٹھویں اور مولانا غلام رسول مہر کے مرتبہ مجموعۂِ خطوط کے چوتھے خط میں غالبؔ لکھتے ہیں :
”حضرت، مطالبِ علمی و شعری کا لکھنا موقوف سوال پر ہے۔ جب حضور کی طرف سے کوئی سوال آئے گا بقدر اپنے معلوم کے جواب لکھا جائے گا۔ “

اس کے بعد اسی خط میں ایک شعر کی تشریح درج کی ہے۔ پھر متعدد خطوط میں یہی دستور دیکھا جا سکتا ہے کہ دریافت کرنے پر غالبؔ، مولوی شاکرؔ گورکھپوری کو اپنے اشعار کے مطالب لکھ بھیجا کرتے تھے۔ اواخر 1865 ء میں (جیسا کہ مولانا غلام رسول مہر نے اندازہ لگایا ہے ) عبد الرزاق شاکرؔ گورکھپوری کو ایک خط میں غالبؔ خود اس شعر کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

” ایران میں رسم ہے کہ داد خواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے، جیسے مَشعل دن کو جلانا یا خون آلودہ کپڑا بانس پر لٹکا کر لے جانا۔ بس شاعر خیال کرتا ہے کہ نقش کس کی شوخیِٔ تحریر کا فریادی ہے کہ جو صورتِ تصویر ہے، اس کا پیرہن کاغذی ہے؟ یعنی ہستی اگرچہ مثلِ تصاویر اعتبار محض ہو، موجبِ رنج و ملال و آزار ہے۔ “

مولانا حسرت موہانی نے اپنی شرح دیوانِ غالبؔ میں اس کا خلاصہ بیان کیا ہے اور ”ایران“ کی بجائے ”ولایت“ لکھ گئے ہیں۔
نظم طباطبائی اول ایران میں کسی ایسی رسمِ داد خواہی کا انکار کرتے ہیں۔ کہتے ہیں ”اردو میں میرؔ کے کلام میں اور مومنؔ خاں کے کلام میں بھی مَیں نے دیکھا ہے مگر میں نے یہ ذکر نہ کہیں دیکھا نہ سنا۔ “

شارحینِ غالبؔ فریادیوں کے کاغذی پیرہن پہننے کا ثبوت مندرجہ ذیل شعر سے دیتے ہیں :
کاغذیں جامہ بپوشید و بدرگاہ آمد
زادۂِ خاطر من تا بدہی داد مرا
(کمال الدین اسمٰعیل اصفہانی، متوفی 1237 غالباً، بمدح الصدر العالم نورالدین المنشی)

اسی طرح حافظؔ کی ایک غزل جس کا مطلع ہے ”یاد باد آن کھ ز ما وقت سفر یاد نکرد / بہ وداعی دل غمدیدہ ما شاد نکرد“، کا ایک شعر ہے :
کاغذیں جامہ بہ خونآب بشویم کہ فلک
رہنمونیم بھ پای عَلم داد نکرد

ترجمہ: ہم اپنا کاغذی لباس لہو کے پانی سے دھوتے ہیں کیوں کہ فلک نے / پایۂِ عَلَمِ داد تک ہماری رہنمائی نہ کی۔

قاضی سجاد حسین صاحب نے اپنے ترجمہ و شرح (صفحہ 219 ) میں یہ شعر مختلف لکھا ہے۔ اور دیوان کے عربی مترجم ابراہیم امین الشواربی (صفحہ 83، غزل 112 ) نے اس کا غلط ترجمہ کیا ہے۔ لیفٹننٹ کرنل ہینری ولبرفورس کلارک نے اپنے انگریزی ترجمہ دیوانِ حافظؔ (جلد اول، صفحہ 268، طبع 1891 ) میں خوب حق ادا کیا ہے :

The papery garment we wash in bloody water For the sky
My guidance to the standard of justice — made not

سعید نیاز کرمانی اپنی کتاب ”حافظ شناسی“، جلد 13، مضمون ”کاغذیں جامھ“ میں اس رسم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
”از جملھ رسمھایی کھ تا چند قرن پیش مرسوم و رایج می بودھ و اینک منسوخ شدھ است و نشانی از آن نیست این کھ ہر گاھ بھ یک نفر ستم می شد و عاملان حکومت راھ دادخواھی بر او می بستند و از ہمھ سو نا امید می گردید جامھ ای از کاغذ می ساخت و ماجرای ظلمی کھ بر او رفتھ بود بر روی آن می نوشت و آن را می پوشید و در نقطھ ای از شھر کھ برای دادخواھی مظلومان مشخص شدھ بھ نام“ علم داد ”معروف بود، می ایستاد و حاکم یا فرمانروای شھر چون از آن راھ می گذشت و کاغذین جامھ را بر پیکر او می دید بھ دادش می رسید۔ “

خلاصہ اس کا یہ ہے کہ جب عاملانِ حکومت کسی مظلوم کی داد رسی نہ کرتے اور وہ ہر طرف سے مایوس ہو جاتا تو کاغذی جامہ تیار کرتا، اس پر اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا ماجرا لکھتا، اسے پہنتا اور شہر کے مقام ”عَلَمِ داد“ پر جا کھڑا ہوتا۔ حاکم یا فرمانروائے شہر وہاں سے گزرتا تو اس کے جسم پر کاغذی پیرہن دیکھ کر اسے بلا لیتا۔ رفتہ رفتہ یہ رسم ختم ہو گئی اور اس کا نام و نشان بھی نہ رہا۔

اپنے مضمون میں سعید کرمانی نے حافظؔ سے قبل بھی فارسی ادب میں اس رسمِ داد خواہی کے ثبوت دیے ہیں۔

مرزا غالبؔ اور حافظؔ (متوفی 1389 / 90 ) کی وفات میں کوئی پونے پانچ صدیوں کا بُعد ہے۔ سو یہ واضح ہے کہ غالبؔ نے کوئی ایسی غلط بات نہ کہی تھی اور ایسی روایت واقعۃً موجود تھی۔ اسی لئے میرؔ و مومنؔ کے کلام میں بھی تھی۔ اگر تھوڑی باریک بینی سے پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ طباطبائی کی مراد اس رواج کا فی زمانہ موجود نہ ہونا تھی، سو یہ بات درست ہے۔ بعد کے شارحین نے اس کو کلیۃً انکار پر محمول کر کے بات بڑھا دی۔

پھر نظم طباطبائی مندرجہ ذیل الفاظ میں حتمی رائے یہ دیتے ہیں کہ یہ شعر ہی بے معنی ہے :

”اس شعر میں جب تک کوئی ایسا لفظ نہ ہو جس سے فنا فی اللہ ہونے کا شوق اور ہستیِٔ اعتباری سے نفرت ظاہر ہو اس وقت تک اسے با معنی نہیں کہہ سکتے۔ “

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے پھر ایک مفروضہ پیش کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے ایسا بے معنی شعر کیوں کہا۔ فرماتے ہیں :

”کوئی جان بوجھ کر تو بے معنی کہتا نہیں۔ یہی ہوتا ہے کہ وزن و قافیہ کی تنگی سے بعض بعض ضروری لفظوں کی گنجائش نہ ہوئی اور شاعر سمجھا کہ مطلب ادا ہو گیا تو جتنے معنی کہ شاعر کے ذہن میں رہ گئے اسی کو المعنی فی بطن الشاعر کہنا چاہیے۔ اس شعر میں مرزا صاحب کی غرض یہ تھی کہ نقشِ تصویر فریادی ہے ہستیِٔ بے اعتبار و بے توقیر کا، اور یہی سبب ہے کاغذی پیراہن ہونے کا۔ ہستیِٔ بے اعتبار کی گنجائش نہ ہو سکی اس سبب سے کہ قافیہ مزاحم تھا، اور مقصود تھا مطلع کہنا۔ ہستی کے بدلے شوخیِٔ تحریر کہہ دیا اور اس سے کوئی قرینہ ہستی کے حذف پر نہیں پیدا ہوا۔ آخر خود ان کے منہ پر لوگوں نے کہہ دیا کہ شعر بے معنی ہے۔ “

اس سب کا لبِ لباب یہ ہے کہ نقش (ہستی) اور شوخیِٔ تحریر میں کوئی ایسا تعلق نہیں کہ ایک کو دوسرے کی جگہ کہا جا سکے، لہٰذا کلام بے معنی ہوا۔

دبے دبے لفظوں میں ہی سہی، کسی حد تک پروفیسر یوسف سلیم چشتی بھی اس اعتراض سے متاثر نظر آتے ہیں۔ اپنی شرح میں شعر کی تشریح کے بعد تبصرے میں لکھتے ہیں : ”نقش، شوخیِٔ تحریر کا فریادی ہو یا نہ ہو۔ الخ“۔

بھلا ہو سید اولاد حسین شاداں بلگرامی کا کہ انہوں نے چند مصرعے موزوں کر کے کم از کم قافیے کی تنگی کا الزام رفع کر دیا۔

”نقش“ و ”شوخیِٔ تحریر“ میں تعلق کے بارے میں ہمارا خیال تھوڑا مختلف ہے۔ اول تو ہم سمجھتے ہیں کہ طباطبائی مرحوم کو خاص اس مقام پر غالبؔ کو شعری تصرف (poetic license) کے حق سے محروم نہیں کرنا چاہیے تھا۔ دوم یہ کہ طباطبائی اور دیگر متذبذب شارحین کی توجہ لفظ ”تحریر“ پر اس قدر نہیں رہی جس کا یہ شعر حق دار تھا۔ اگر مسئلہ ”شوخیِٔ تحریر“ سے ہے تو حل بھی اسی پر غور کرنے سے ہو گا۔ جس بے تکلفی سے غالبؔ نے خود شعر کی تشریح کی ہے وہ اس بات کی آئینہ دار ہے کہ مرزا کا اس طرف ذہن ہی نہیں گیا کہ یہ بات بھی لوگوں کو شعر سمجھنے میں مانع ہو گی۔ عوام کے ساتھ البتہ مشکل یہ رہی کہ غالبؔ نے لفظ ”تحریر“ جن معنوں میں استعمال کیا ان میں یہ لفظ مفرد استعمال نہیں ہوتا۔ اس کی تفصیل ذیل میں ہے۔

جان ٹی پلیٹس (Platts) اپنی لغت طبع 1884 میں ”تحریر“ کے معنوں کے تحت لکھتے ہیں : ” (کسی خاکے یا تصویر پر) آرائشی لکیریں ؛ لکیریں (مثلاً سرمے کی تحریر) ؛ قلمکاری (قلم یا پنسل سے بنائی گئی تصویر) ؛ تصویر“۔

”تحریر“ بمعنی ”تصویر“ کی تصدیق ترکیب ”تحریرِ نقشِ پا“ سے بھی ہوتی ہے۔ اردو لغت بورڈ، کراچی کی مطبوعہ لغت میں اس ترکیب کا قدیم ترین استعمال 1849 میں مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفرؔ کے دیوان کے ایک شعر میں دیا ہے۔ اس طرح غالبؔ سے شعری تصرف کرنے کا شائبہ بھی دور ہو جاتا ہے، البتہ یہ ضرور ہوا کہ غالبؔ نے ایک نئی ترکیب ایجاد کی، اور یہ عام سی بات ہے۔

اب جب غالبؔ کے اس شعر کے مہمل ہونے کی تمام وجوہات رد ہو گئیں اور جملہ تفصیلات فراہم ہو گئیں تو اس کی تشریح کی طرف بڑھتے ہیں۔

نثر: غالبؔ ہی کے الفاظ میں اس کی بہترین نثر یوں ہے : ”نقش کس کی شوخیِٔ تحریر کا فریادی ہے کہ جو صورتِ تصویر ہے، اس کا پیرہن کاغذی ہے۔ “ (عودِ ہندی، محولہ بالا)

شرح اول: تصویر فریاد کناں ہے کہ اس کے مصور نے اگرچہ اسے شوخ بنایا مگر کیا فائدہ کہ جب کاغذی پیرہن ہے اور نا پائیدار ہے! احسن علی خاں کے حوالے سے اضافہ کیا جا سکتا ہے کہ اس نوحہ کنائی کی وجہ تصویر کا شکوہ ہے کہ جب مصور اس میں روح نہیں پھونک سکتا تو پھر اس کاغذی وجود کا کیا فائدہ؟ یہ شعر کے حسی معنی ہیں۔

شرح دوم: مجازی و صوفیانہ معنوں میں نقش کو مخلوقات، اس نقش کے بنانے والے کو خالق، اور کاغذی پیرہن کو مخلوقات کی نا پائیداری خیال کریں تو مطلب یہ ہے کہ ہر مخلوق کی رنگینی و رعنائی بزبانِ حال اپنے خالق سے اپنی بے ثباتی کا شکوہ کرتی ہے۔ مخلوقات کی شوخی کا بتا کر غالبؔ نے اپنے دیوان کا آغاز حمدیہ کیا ہے۔ اس میں شکوہ کا پہلو نکالنا غالب کی اپج ہے۔
کون سی چیز ہے جس کو فنا نہیں، اور فنا کی کس صورت پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا! سو سَو سَو مطالب اس ایک شعر سے نکلتے ہیں۔

محمود احمد
Latest posts by محمود احمد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).