اب لال ٹماٹروں کو ترسو


سوشل میڈیا پر ایک بھارتی کسان کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے، جس میں وہ دھمکی دے رہے ہیں کہ اب ہم اپنے ٹماٹر پاکستان کو فروخت نہیں کریں گے، کیونکہ وہ ہمارے ٹماٹر کھا کر ہمارے ہی جوانوں کو مارتے ہیں۔ اور یہ ویڈیو ایک مشہور بھارتی نیوز چینل ABP نیوز سے لی گئی ہے۔ جہاں ایک خاتون نیوز اینکر اس بڑی خبر کی جانکاری ان الفاظ میں دے رہی ہیں۔

”اب نہیں دیں گے ٹماٹر پاکستان کو“

اب لال ٹماٹروں کو ترسے گا پاکستان ”

بظاہر یہ کسی کامیڈی شو کی نیوز پیروڈی لگتی ہے۔ مگر حقیقت میں ہندوستانی میڈیا میں یہ روز کی پاکستان مخالف خبروں کے انداز کی ایک مثال ہے۔ گویا ٹماٹر نہ ہوئے بارود ہو گیا، جو پاکستانی فوجی اپنی بندوقوں میں ڈال کر ہندوستانی سورماؤں کو مارتے ہیں۔ یا پھر ہو سکتا ہے سرحد پار سے آنے والے ٹماٹر کھا کھا کر پاکستانی فوجی شکتی مان کی طرح اس قدر طا قتور ہو جاتے ہوں، وہ ادھر سے پھونک مار کر ہی بھارتی سینکوں کو مورچوں سے اڑا دیتے ہوں۔

بہتر ہو گا اب سو فیصد قدرتی اور انسانی کھاد سے تیار شدہ یہ ٹماٹر سرحد کے اس پار ہی رہیں۔ انسانی کھاد اس لئے کیونکہ، اکثر بھارتی شہری سبزی کے انہی کھیتوں میں اپنے اندرونی بوجھ سے فراغت حاصل کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے ڈھیلوں کی جگہ بھی یہی ٹماٹر استعمال کر لئے جاتے ہوں۔ چونکہ بھارت کی زیادہ تر آبادی شاکاہاری یعنی سبزی خور ہے، تو ایک تو یہ ٹماٹر کھا کھا کر بھارتی مہاشوں کی صحت بھی اچھی رہے گی۔ اور دوسرا اگر ان ٹماٹروں میں سے کچھ گل سڑ بھی گئے تو بھی ضائع نہیں ہوں گے، بلکہ دوماہ بعد ہی مودی جی کے سواگت کے کام آئیں گے۔

بلکہ مودی جی کے سواگت کے لئے تو گندے انڈے بھی چاہیے ہوں گے، شاید اس وقت تک دونوں پڑوسیوں کے حالات میں کچھ سدھار بھی آ جائے۔ حالانکہ عمران خان کا مرغی اور انڈوں والا پلان ابھی تک کاغذوں میں ہی ہے، لیکن چونکہ گندے انڈے یہاں وافر مقدار میں دستیاب ہیں، اس لئے انہیں سرحد پار بھیج کر اس وقت ہم پڑوسیوں کی مدد کر کے ان کے دل جیتنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ کیونکہ سنا ہے کہ وہاں پاکستانی گندے انڈوں کی بہت مانگ ہے۔

اس سے پہلے کئی بار پاکستان سے ہوا کے دوش پر آنے والے غبارے پکڑے جا چکے ہیں، جن پر آتنکی سندیش لکھے ہوتے ہیں۔ اور کئی بار آتنکی کبوتر بھی گرفتار کر کے میڈیا کے سامنے پیش کیے جا چکے ہیں۔ ہندوستانی میڈیا میں اکثر نیوز چینلز پر تقریباً روز ”آج کا مکھیا سماچار“ یا ایک دھماکے دار خبر ہوتی ہے، جس میں پاکستان کی ہندوستان کے کھلاف رچی جانے والی گھمبھیر ساجش کا کھلاصہ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کئی کئی کلو میک اپ چہرے پر تھوپے ان کے مکھیا سمبارداتا، وشیش وگیانک، پر مکھ راج نیتا اور مکھیا سرکھشا وشیشک ان ٹاک شوز پر بیٹھ کر دھول اڑانا شروع کرتے ہیں۔

منہہ سے جھاگ نکالتے شرکاء ان شوز میں پاکستان کو آتنکستان، ناپاک، جانوروں کا دیش اور ہر طرح کے برے القابات اور گالیوں سے نوازتے ہیں۔ اس دوران اگر بھولے سے بھی کوئی معقول آدمی امن کی بات کر دے تو پروگرام کے میزبان سمیت باقی سب شرکاء اس پر لٹھ لے کر چڑھ دوڑتے ہیں۔ اس کو فوراً پاکستانی ایجینٹ، آئی ایس آئی کی زبان بولنے والا اور غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔ اور اسے فوراً پاکستان چلے جانے کا مشورہ دے دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے پروگراموں میں کبھی کبھی دھلائی کرنے کے لئے ایک آدھ مقامی مسلمان، یا کشمیری لیڈر کو بھی لائن پر لے لیا جاتا ہے۔ اور وہ بیچارہ پہلے تو اپنے آپ کو دیش بھگت ثابت کرنے اور بعد میں پورا وقت دوسرے شرکاء کی گالیوں سے بچنے میں گزار دیتا ہے۔

اس وقت بھارت میں پاکستان کے خلاف نفرت کا چورن خوب بیچا جا رہا ہے۔ اس سب میں پچھلے پانچ سال سے بہت اضافہ ہو چکا ہے۔ جب سے ہندو انتہا پسند سنگھ پریوار کے ہاتھ ہندوستان کی قیادت آئی ہے۔ معقولیت کی بات کرنے والے دور کہیں کونوں کھدروں میں جا چھپے ہیں۔ آنجہانی بالی ووڈ اداکار اوم پوری کو تو امن کی بات کرنے کی پاداش میں پاکستان کا کتا تک کہا گیا اور وہ غیر معمولی اور مشکوک حالات میں غیر طبعی موت مرے، اور اب حالیہ دنوں میں نوجوت سدھو اپنے ہی ہموطنوں کی نفرت کا شکار ہیں۔

طارق فتح جیسے لوگوں کو وہاں پر ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے، جو وہاں کے ہر چینل پر بیٹھ کر پاکستان کی توہین وتضحیک کرتے اور مغلظات بکتے ہیں۔ ان کی باتوں پر خوب تالیاں بجتی ہیں اور شو چلتے ہیں۔ کوئی بھی وہاں یہ سوال اٹھانے کی جرات نہیں کرتا کہ آپ لوگ ایک پڑوسی ملک و قوم کے خلاف اتنی نفرت کیوں پھیلا رہے ہیں اور ان کی توہین کیوں کرتے ہیں۔ بھارتی میڈیا اپنے لوگوں کو پاکستان فوبیا کا اس قدر مریض بنا چکا ہے کہ، اتنی دہشت تو دہشت گرد بھی نہیں پھیلا سکتے، جتنی دہشت اپنے لوگوں کو ان کے میڈیا نے پاکستان، پاکستانی فوج، آئی ایس آئی اور پاکستان کے پرمانو بموں سے ڈرا کر پھیلا رکھی ہے۔

مودی سرکار نے ”سب کا وکاس“ کے نام پر ووٹ لئے تھے، مگر گزرے پانچ برس میں اور کوئی ترقی ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف نفرت اپنی ترقی کی انتہا کو چھو رہی ہے۔ کئی مسلمانوں کو گاؤ کشی کے الزام میں تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔ کئی لو جہاد کے نام پر مارے جا چکے ہیں اور ”گھر واپسی“ کے نام سے چلنے والی مہم کے ذریعے سے اینکڑوں کو جبری مذہب کی تبدیلی پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ اس سب کے ساتھ ساتھ پاکستان پر خوب کس کر نشانہ سادھا گیا ہے، اور دیش بھگتی کے نام پر میڈیا کو ہمنوا بنا کر پاکستان کے خلاف اس قدر نفرت لوگوں کے دلوں میں انڈیل دی گئی ہے کہ پلوامہ جیسا واقعہ نہ بھی رونما ہوتا تو بھی لوگوں کو ذہنی طور پر اپنے مستقل دشمن کے ساتھ جنگ کے لئے ہمیشہ سے آمادہ رکھا گیا تھا۔ بس اب تو صرف یہی فرق پڑا ہے کہ اس سارے عمل میں بدلے کی بھاونا بھی شامل ہو گئی ہے۔ اور پچھلے پانچ سال تک میڈیا کے ذریعے سے مودی سرکار اور سنگھ پریوار نے جو نفرت کی فصل بوئی تھی، پلوامہ حملے کے بہانے مودی دو ماہ بعد آنے والے الیکشن سے پہلے اس فصل کا پھل کھانے کے شدید آرزو مند ہیں۔

خیر جنگ کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ بہتر ہے بات ٹماٹر بندی تک ہی رہے۔ ہم اس وقت تک لال ٹماٹروں کی جگہ دہی سے کام چلا لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).