سعودی عرب، پاکستان اور ہندوستان


سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حالیہ دورہ پاکستان میں سعودی عرب نے پاکستان میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے۔ اس کے بعد مگر ان کے دورہ ہندوستان میں سرکاری شعبے میں 28 ارب ڈالر کے مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط سمیت سعودی عرب جنرل انوسمنٹ اتھارٹی نے ہندوستان کے نجی شعبے کے ساتھ اربوں ڈالرز کے 11 مزید مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے۔ شہزادہ محمد نے ہندوستان میں ایک تقریب میں یہ بھی کہا کہ اگلے دوسالوں میں انہیں سعودی عرب کی طرف سے ہندوستان میں 100 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کے امکانات نظر آ رہے ہیں۔

یاد رہے ہندوستان اور سعودی عرب کے باہمی تجارت کا حجم 18۔ 2017 میں تقریباً 28 ارب ڈالر تھا جبکہ سعودی عرب ہندوستان کا چوتھا بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تجارت کا حجم محض 3.4 ارب ڈالر ہے۔ 2010 میں یہ حجم 4 ارب ڈالر تھا۔ سعودی عرب کی طرف سے پاکستان میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کا حجم پچھلے مالی سال میں صرف 17.4 ملین ڈالر تھا۔

شہزادہ محمد نے دورے کے دوران نہ صرف ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کو اپنا بڑا بھائی قرار دیا بلکہ ان کی درخواست پر ہندوستان کا حج کوٹہ دو لاکھ تک بڑھانے اور سعودی عرب کی جیلوں میں قید تقریباً 900 ہندوستانیوں کو رہا کرنے کا اعلان بھی کردیا۔

ہمارے ہاں عام خیال ہے کہ پاکستان کو اہم گردانتے ہوئے ہی ولی عہد شہزادہ محمد نے خود کو سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر قرار دیا جبکہ ہمارے وزیراعظم کی کرشماتی شخصیت ہی کی وجہ سے وہ پاکستان کا حج کوٹہ بڑھانے اور 2000 پاکستانیوں کو قید سے رہا کرنے پر آمادہ ہوئے تھے۔

کیا ہندوستان اور اس کے وزیراعظم نریندر مودی کو اتنی زیادہ اہمیت دینے کا مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب اورجناب محمد بن سلمان کی نظر میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ہندوستانی منصب مودی یا پاکستان اور ہندوستان یکساں مقام رکھتے ہیں؟

اور یہ اس کے باوجود کہ پاکستان ان کا ایک برادر اسلامی ملک اور ہندوستان مسلمانوں کے دشمن اسرائیل کا قریبی دوست، کشمیر کے لاکھوں مسلمانوں کا قاتل اور ”کافروں“ کاملک ہے ؟ اگرچہ ہمارے انقلابی یہ بات نہیں مانتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب ممالک اپنے بین الاقوامی تعلقات مذہبی رشتے نہیں بلکہ اپنے مفادات کی بنیاد پر بناتے اور رکھتے ہیں۔ دوسرے ممالک ہماری طرح بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ نہیں ہوتے۔ جہاں سے بھی ان کو فائدہ ملتا ہو اس ملک یا ممالک سے راہ و رسم بڑھانا اور تجارت کرنا ان کے حکمران اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب نے تقریباً ہر تکلیف اور ضرورت کے وقت پاکستان کی مدد کی ہے اور وہاں موجود پاکستانی تارکین وطن ہر سال تقریباً 5 ارب ڈالرز کا زرمبادلہ بھیجتے ہیں لیکن پاکستان نے بھی تقریباً ہر مسئلے پر ان کا ساتھ دیا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن نے سعودی عرب کی جدید تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا جبکہ پاکستانی فوج نے ان کی فوجی استعداد بڑھانے اور دفاع کو یقینی بنانے کے لیے خود کو وقف کیا ہوا ہے۔ یعنی اس تعلق میں دونوں کا ہی فائدہ تھا اور ہے اس لیے یہ برقرار رہا اور پروان چڑھتا رہا۔ اس کی کوئی دوسری وجہ نہیں۔

تاہم پاکستان کے لیے ان کے دورہ ہندوستان میں خوشی کی خبر یہ ہے کہ ہندوستان کی خواہش کے باوجود شہزادہ محمد نے اپنے دورے کے دوران یا اختتام پر سرکاری اعلامیہ میں پاکستان یا اس کی کسی تنظیم کو پلوامہ حملے میں موردالزام ٹھہرانے سے اجتناب برتا۔ اس کے برعکس اعلامیہ میں مودی نے ان کے ساتھ مان لیا کہ

”The two sides stressed the importance of regional stability and good neighbouring relations۔ “

یعنی دونوں ملکوں نے علاقائی استحکام اور اچھے پڑوسی تعلقات کی اہمیت پر زور دیا۔
وزیراعظم مودی جس انداز میں پاکستان کے خلاف بولتے ہیں اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اس اعلامیہ پر دستخط ان کے لیے یقیناً ایک سخت مشکل اور ناخوشگوار فیصلہ ہوا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).