دشمن کا شہر دلّی


دلّی دوسری مرتبہ میں 2008 میں جانا ہوا۔ مشہور فلم امراؤجان کے ڈائریکٹر مظفر علی کی ایک فلم کے اسکرپٹ پر کام کرنے۔ مظفر علی خود لکھنؤ کا نوابی پس منظر رکھتے ہیں اور انتہائی صوفی منش انسان۔ ان کی بیگم میرا علی بھی بہت ہی نفیس خاتون۔ بہت فخر سے اپنے نومسلم ہونے کا ذکر کرتی تھیں۔ مظفر علی کے گھر میں رہتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوتا رہا، جیسے میں قرۃ العین حیدر کے کسی ناول میں رہ رہی ہوں! لکھنؤ کے مخصوص رکھ رکھاؤ کے ساتھ کانوں میں پڑتی ہوئی نستعلیق اردو۔ ایک دن کسی بات پر مذاق کرتے ہوئے میرے منہ سے لفظ ”دشمن ملک“ نکل گیا۔ مظفر علی کی زبان ایک دم دانتوں تلے آگئی۔ تردید میں سرہلاتے ہوئے بولے، کبھی ایسے الفاظ استعمال نہ کیا کریں۔ اس سے نفرت بڑھتی ہے۔

مظفرعلی کے گھر میں رہتے ہوئے ایک دن صبح ہی صبح پتہ چلا کہ ہندوستان کے کسی صوبے میں سیلاب آگیا ہے۔ خاصی تباہی مچی ہے۔ فون پر فون آرہے تھے اور دونوں میاں بیوی کی پریشانی دیدنی تھی۔ تمام وقت وہ دونوں افسردگی کے ساتھ سیلاب متاثرین کے بارے میں خیر خبر لیتے رہے۔ جو فون آتا اس پر بھی وہی افسردہ گفتگو ہورہی ہوتی۔

دھرتی اور دھرتی باسیوں سے مظفر اور میرا کی ماں جیسی محبت مجھے تب شدت سے یاد آئی جب ٹھیک دو سال بعد سندھ میں سیلاب شدید تباہی لے آیا اور لاکھوں لوگ ایک بڑی تباہی اور المیے سے دوچار ہوئے۔ ایک دن کراچی کے ایک پوش علاقے میں، میں اپنے دوستوں کے گھر پر بیٹھی تھی۔ ٹی وی پر کسی ڈرامے کی قسط چل رہی تھی اور خاتونِ خانہ اس میں محو تھیں۔ ڈرامہ ختم ہوا تو میں نے نیوز چینل لگانے کو کہا، کیونکہ میں سیلاب کی تازہ صورتحال جاننا چاہ رہی تھی۔

صاحبِ خانہ نے پوچھا کہ کیوں، کوئی خاص خبر آنی ہے کیا؟ جواب میں میں نے سیلاب کا ذکر کیا۔ صاحبِ خانہ نے ہلکا سا چونک کر کہا، اچھا سیلاب آیا ہے؟ ہمیں تو پتہ ہی نہیں! وہ اپنی معلومات کے لیے ایک ایک کرکے اردو نیوزچینلز لگاتے گئے مگر گھنٹہ بھر گزر گیا، سیلاب کی خبر ہی نہ آئی! میں نے ریموٹ کنٹرول لے کر سندھی چینل لگایا، جس کی اسکرین پر قیامت خیز مناظر دکھائے جارہے تھے۔

دونوں میاں بیوی حیرت سے وہ مناظر یوں دیکھ رہے تھے جیسے کسی اجنبی دیس کا منظر ہو! اچانک خاتونِ خانہ نے گھبرا کر شوہر کا ہاتھ پکڑ لیا اور سہم کر پوچھا، جانو! یہ سیلاب کراچی تک تو نہیں پہنچے گا نا؟ شوہر نے بڑے پیار سے تسلی دی کہ نہیں میری جان! یہ دریا کا سیلاب ہے اور کراچی اس سے بہت دور ہے، یہاں تک یہ سیلاب آ ہی نہیں سکتا۔ جواب میں میرے پاس صرف ایک اداس مسکراہٹ تھی۔

دلّی میں جب مظفر علی اور میرا کو فلم کے مکالمے لکھوا رہی تھی تو اچانک مظفر علی اٹھ کر قریب آ بیٹھے۔ بولے آپ ہندوستان آجائیے۔ وہاں آپ کیا کررہی ہیں! آپ کو تو یہاں کی فلم انڈسٹری میں ہونا چاہیے۔ میں نے بے اختیار کہا کہ نہیں یہ نہیں ہوسکتا۔ جواب میں ہنس کر کہا ہوا ان کا جملہ میرے دل میں اتر گیا کہ ہاں آپ کو تو یہاں کے مردے بھی نہیں پہچانیں گے!

واقعی کتنا ضروری ہوتا ہے کہ ہم جہاں بسیرا کیے ہوئے ہوں، وہاں کے مردے بھی ہمیں پہچانیں۔ مردے جو ہمارے والدین اور والدین کے والدین کے ہوتے ہیں۔ ہمارے ساتھ زندگی جینے والوں کے ہوتے ہیں۔ برس ہا برس کے سفر میں یہ مردے ہی اجنبیت کے خلا کو بھرتے چلے جاتے ہیں جو دھرتی سے محبت کا سبب بنتے ہیں۔ ستر سال میں ہم جانے کتنے مردے اس دھرتی میں بو چکے ہیں۔ جو چیز اس دھرتی میں نہ بو سکے وہ ہے محبت۔ انسان کی انسان سے غیر مشروط اور تعصب سے پاک محبت۔

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah