پیسے کے پجاری، ڈاکٹر اور انسانیت


موضوع بھی عجیب سا ہے اور عنوان بھی لیکن تحریر ضروری ہے۔میرے والد پیر سید پرویز حیدر زیدی صاحب کہا کرتے تھے کہ لوگوں کا خدا پیسہ ہوگیا ہے۔ میں اپنی کم عمری، کم علمی اور کم عقلی کی بناء پراس بات سے کبھی متفق نہ ہوا۔

مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی خدا ہو ہی نہیں سکتا، وہی واحد اور لاشریک ہے۔ پھر عمر بڑھی اور میں کم علمی سے عملی زندگی میں آیا تو میں نے دیکھا کہ واقعی لوگ اللہ تعالیٰ کے علاوہ پیسے کو بھی خدا مانتے ہیں۔ گھر میں جائیداد کی تقسیم ہو تب بھائی بھائیوں سے نظریں بدل لیتے ہیں لیکن جمعہ پہلے صف میں پڑھنے کو ترجیح د یتے ہیں۔ لوگ چوری کرتے ہیں، ڈاکہ ڈالتے ہیں، زمینوں پہ قبضے کرتے ہیں، رشوت لیتے ہیں، مجبوریوں کی قیمت لگاتے ہیں، اور تو اور مسجدوں میں بیٹھ کر چند ٹکوں کے عوض فتوے بھی دے دیتے ہیں۔ سوال کیا جائے کہ کیا واقعتاً کلمہ پڑھنے کے بعد بھی ایمان بیچا جاسکتا ہے؟ تو جواب ہے ہاں۔ لوگ پیسے کی خاطر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایمان بیچتے ہیں۔ پیسے کی چمک نے آنکھوں ایسا اندھا کیا ہے کہ اب کعبہ آسانی سے نظر نہیں آتا۔

جنابِ عیسیٰ ؑ جنھیں مسیحؑ بھی کہا جاتا ہے، وہ نبی اللہ معجزہ نما ہیں۔ وہ مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے اور بیماروں کو صحت بخشتے تھے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں مسیحائی بھی کاروبار ہے۔ شاید جب تک طبیب تھے تب تک قابلِ عزت تھے، اب ڈاکٹر ہیں اور لالچی ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جیسے محلے میں قاری صاحب، ماسٹر صاحب کی سب دل سے عزت کرتے ہیں ویسے ہی ڈاکٹرصاحب کی بھی عزت کی جاتی تھی، اور تھی کا مطلب سب جانتے ہیں۔

شاید جو سر جیکل انسٹرومنٹس جراحت یعنی آپریشن کے لئے ڈاکٹروں کے ہاتھوں میں ہوتے تھے اب مریضوں کی کھال اُتارنے یا جیب کاٹنے کے کام آتے ہیں۔ جب کوئی اپنے کسی پیارے کو ہسپتال لے کرجاتا ہے تو اُسکا سارا دارومدار ڈاکٹر پہ ہوتا ہے، لیکن ڈاکٹر صاحب کو اس اعتماد کے ٹوٹنے کی کوئی پرواہ نہیں۔ وہ معائنہ کے بعد کسی فارما سوٹیکل کمپنی کا رائیٹنگ پیڈ اُٹھاتے ہیں اوردوائیاں تحریر کیے جاتے ہیں۔ چھ سے آٹھ دوائیں لازم ہیں۔

بنیادی طور پر ڈاکٹرصاحب واوچر بھر تے ہے، شاید بیرونِ ملک چھٹیاں گزارنے کا، یا ہسپتال کی تزئن و آرائش کا، یا پھر چند ہوم اپلائنسز کا۔ مگر عیش وعشرت کی ہوس کو ابھی کہاں ختم ہونا ہے، ساتھ میں احتیاطاً چند ٹیسٹ بھی تحریرکردیتے اور لیباٹری والا روزانہ یا ہفتہ واریا ماہانہ حساب کتاب کلیئر کردیتا ہے۔ اس روایتی برائے فروخت مسیحائی کے بعد ایک نئی مخلوق نے جنم لیا ہے جسے عرفِ عام میں ینگ ڈاکٹرزکہا جاتا ہے۔

بڑے توخیر جو بھی کرتے رہے لیکن یہ ینگ ڈاکٹرز تو بالکل ہی بے مرشدے ہیں۔ افسوس ہم اس نوجوان نسل کو گذشتہ سے قابل سمجھ رہے ہیں۔ آئے روز ہڑتال، ہسپتال بند اور غریب مریض بیچارے بے بس۔ پڑھے لکھے جاہلوں کی بے حسی سی بے حسی ہے، تعلیم کی فراوانی لیکن تربیت کا فقدان۔ بچپن میں ماؤں کی گودوں میں انسانیت کی خدمت کا عزم رکھنے والے، بڑے ہوکرانسانیت کے لفظ سے ہی ناآشنا ہو جاتے ہیں، کیا پیسہ اتنا اہم ہوتا ہے؟

بلکہ سوال یوں ہونا چاہیے کہ کتنا پیسہ، اہم ہوتا ہے؟ کوئی حد تو مقرر ہوگی۔ حقیقت پہ غور کریں تو پاکستان میں اکثریت شہریوں کی ماہانہ آمدن چند ہزار روپے سے زیادہ نہیں لیکن یہ ینگ ڈاکٹرز بھاری تنخواہ لیتے ہیں، ہمراہ کچھ مراعات بھی ہوں گی۔ تو پھر کِس سروس اسٹریکچر کے مطالبے میں شفاخانے بند رکھے جاتے ہیں؟ کیا ڈاکٹر صاحب دو سے زیادہ روٹیاں کھانا چاہتے ہیں؟ کیا چار کمروں کا مکان ان کی ضرورت سے کم ہے؟

یا آٹھ سو سی سی کی گاڑی شان کم کردیتی ہے؟ ڈاکٹر صاحبان کچھ خدا کا خوف کریں اس سے پہلے کہ خدا خود انہیں خوف میں مبتلا کردے۔ ڈاکٹروں کو لالچ اور بے حسی بالکل زیب نہیں دیتے اُنکے سامنے تو آئے روز لوگ مرتے ہیں، وہ بھی خالی ہاتھ۔ ڈاکٹری کی ساری عزت ایک طرف اور بیمار بچہ لئے کسی گاؤں سے آئی ماں کی بے بسی ایک طرف، جو یہ نہیں جانتی کہ اوپی ڈی کیا بلا ہے؟ ایمرجنسی کدھر ہے؟ پرچی کہاں سے بنتی ہے؟ ایم ایس کیا ہوتا ہے؟

اور ڈاکٹروں کے بورڈز پہ مختلف ترتیبوں سے لکھی اے بی سی کِن کِن ڈگریوں اور کورسزکا مخفف ہیں۔ رحم کریں اُس عورت پر وہ صرف آپ کو مسیحا مانتی ہے۔ ڈاکٹر صاحبان سے گذارش ہے کہ اس دنیا سے اُتنا ہی حصہ لیں جتنا ضرورت ہے باقی اگلے جہاں کام آئے گا۔ دوسری جانب ایک تجویز حکومت کی خدمت میں بھی عرض ہے کہ بچپن کی خواہش سے میڈیکل کالج میں داخل ہونے تک یہ ڈاکٹرز مسیحا ہی بننا چاہتے ہیں، فرعونیت تو اِن میں ڈاکٹر بننے کے بعد آتی ہے۔

تو کیوں نہ انہیں ڈاکٹر بننے ہی نہ دیا جائے؟ ایسا قانون مرتب کریں کہ ڈاکٹر ی پاس کرنے کے بارہ سے پندرہ برس تک ڈگری جاری نہ کی جائے، صرف ایک سرٹیفیکیٹ ہو جس کے تحت وہ پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں میں کام کرسکتے ہوں، اُسی سروس اسٹریکچرکے مطابق جو محکمہ دے۔ ڈگری نہ ہوتے ہوئے پرائیویٹ پریکٹس کرنا بھی جرم ہوگا اور بیرونِ ملک ان کی کوئی حیثیت بھی نہ ہوگی۔ میڈیکل کالج میں داخلے کے وقت حلف نامہ لیں کہ وہ ڈاکٹر بننے کے بعد بھی انسان ہی رہیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ لوگ مسیحاوں کی طرف دیکھتے ہیں، لوگوں کی آنکھوں میں موجود عزت کو سمیٹ لیں، پیسہ تو آنی جانی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا سب سے مستند ترین اور مختصرترین راستہ اُسکی مخلوق کی خدمت کے ذریعے ممکن ہے۔ دوبارہ لکھے دیتا ہوں ہر وہ عمل شرک ہے جسے کرتے ہوئے آپ کو یقین ہو کہ خدا نہیں دیکھ رہا یعنی آپ قادرِ مطلق کی قدرت پہ شک کرتے ہیں۔ خدارا لا الہ الا اللہ پڑھنے کے بعد مشرک نہ بنیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).