اپنے حصے کا دیا


مجھے یہ کہنے میں کوئی عار یا شرمندگی بالکل بھی محسوس نہیں ہوگی کہ آج ہمارا معاشرہ بے حس اور بے راہ روی کا شکار ہو چکا ہے۔ آئے روز ایک نہ ایک واقعہ ایسی رپورٹ ہوتی ہے جس کے وجوہات جان کر انسان دنگ رہ جاتا ہے اور اپنے وجود کا خدا سے گلہ کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ جس تیزی کے ساتھ دنیا ترقی کے منازل طے کرتی ہے اس تناسب سے ہماری ذہنی پسماندگی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے حتیٰ کہ یہ خیال تک نہیں آتا ہے کہ اپنے اعمال پر شرمندہ ہو کر توبہ کرے اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالے۔

عموماً ہم اپنے لیے وکیل اور دوسرے کے لیے جج کا کردار ادا کرتے ہیں کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے کی زحمت نہیں کرتے ہیں کہ میرے اندر کتنے خرابیاں ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں خلل پیدا ہو سکتا ہے، چونکہ معاشرے کو بنانے اور بگاڑنے میں انفرادیت کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔ ہمارا پسندیدہ مشغلہ یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح کے لیے ہم کوئی عملی کام نہیں کرتے بلکہ دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا کر اپنا بوجھ ہلکا کر دیتے ہیں، حالانکہ انفرادی اصلاح کے بغیر اجتماعی اصلاح ممکن نہیں ہے۔

اصلاح ہماری اپنی ذات سے شروع ہوتی ہے، لوگ یہ نہیں دیکھتے ہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں بلکہ یہ دیکھتے ہیں آپ کیا کر رہے ہیں۔ اپنی اصلاح اس لیے بھی ضروری ہے کہ بچے ماحول کو دیکھ کر پرورش پاتے ہیں جیسا گھر کا ماحول ہوگا ویسا ہی بچے کی شخصیت ہوگی۔ اگر گھر میں والدین دیندار، خوش مزاج اور پاکباز ہوں گے تو ضروری بات ہے بچے بھی اس حساب سے پرورش پائیں گے اگر گھر کا ماحول ناخوشگوار ہے تو بچوں کی شخصیت پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔

گزشتہ ہفتے شہید دیدار حسین کے ساتھ رونما ہونے والا اندوہناک واقعہ بھی اس معاشرتی بیماری کا ایک شاخسانہ ہے۔ مجھے نہیں معلوم جن ظالموں نے دیدار حسین کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد بے دردی سے قتل کر کے دریا برد کیا ان کے ماں باپ کتنے پڑھے لکھے اور سمجھدار ہیں، ان کی دین، دنیا اور معاشرے کے لیے کتنے خدمات ہیں اور وہ انسانیت کے لیے کتنا دکھ درد رکھتے ہیں؟ مگر میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جن والدین کی تربیت نے ان کو اس نہج پر لاکر اس درندگی پر آمادہ کر کے انسانیت کا قاتل بنادیا ان میں کچھ کمی تھی۔

دیدار حسین قتل کے بعد ایک ایک ہو کر ہمارے سیاسی، سماجی اور مذہبی ٹھیکداروں کے پول کھلنے کے ساتھ ساتھ ان کے مذموم عزائم اور ان کے مکروہ چہرے بھی بے نقاب ہوتے گئے۔ کوئی جذبات میں ہوش و حواس کھو کر دل کی بات زبان پر لا کر اپنی اصلیت بتا دیتا ہے تو کوئی اس بھڑکتی ہوئی آگ میں تیل ڈال کر مزید تپش بڑھانا چاہتا ہے، اور کوئی ویکٹ کے دونوں اطراف کھیل کر مقتول اور ملزم دونوں کے دکھ کی دوا بنتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ مذہب کو ہتھیار بنا کر لاشوں پر سیاست کی جاتی یے۔ دیدار حسین کے لاش پر بھی سیاست چمکانے کی بھرپور کوشش کی گئی مگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بروقت ملزموں کو اپنی تحویل میں لے کر تفتیش شروع کی۔

مگر تعجب کی بات یہ ہے دیدار حسین کو انصاف دلانے کے بجائے کافی دور سے کچھ آوازے ایسے نکلنا شروع ہوئے تھے جن کو غور سے سننے کے بعد معلوم ہوتا تھا کچھ موقع پرست نواز خان ناجی صاحب کی چٹورکھنڈ جلسے میں کی گئی تقریر کو بنیاد بنا کر مذہبی انتشار پھیلا کر لوگوں کی توجہ اصل مسئلے سے ہٹانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ گو کہ نواز خان ناجی صاحب کی تقریر میں کوئی مذہبی یا مسلکی عنصر نہیں پایا جاتا ہے۔ تقریباً بیس منٹ پر مشتمل ویڈیو انٹرنیٹ پر موجود ہے جس میں موصوف نے حکومت گلگت بلتستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے دیدار حسین کے لواحقین کو فوری انصاف کا مطالبہ کیا تھا۔

مگر افسوس اس بات پر ہوتی ہے ناجی صاحب کی تقریر کو وہ لوگ مذہبی اور مسلکی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نام سے پہلے ڈاکٹر، صافی اور مولوی لگا ہوا ہے ان کا کام معاشرے کو بنانا ہے نہ کہ معصوم لوگوں کو ورغلا کر انتشار پھیلانا ہے۔

کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کے منازل طے نہیں کرسکتا جب تک ہر فرد اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے اپنی سطح پر معاشرے کی بہتری کے لیے کردار ادا نہ کرے۔ ہم میں سے ہر فرد معاشرے کو ایک مثالی معاشرہ بنانے کی خواہش اپنے سینے میں لیے ہوئے ہے، لیکن سب کی یہ خواہش محض خواہش ہے، کیونکہ ہم عملی طور پر اپنی خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کردار ادا نہیں کرتے، اس ضمن میں شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

خواہش سے نہیں گرتے ہیں پھل جولی میں
وقت کی شاخ کو تادیر ہلانا ہوگا
کچھ نہیں ہوگا اندھیروں کو برا کہنے سے
اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہوگا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).