ایک سیاستدان ایک صحافی


گزشتہ دنوں بلوچستان کے شہر ڈیرہ اللّٰہ یار ضلع جعفر آباد میں ایک صحافتی تقریب کا انعقاد ہوا۔ اس تقریب میں صحافیوں کے علاوہ سیاستدان اور سرکاری افسران سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات اور عام شہری بھی کثیر تعداد میں شریک تھے۔ اس موقع پر بلوچستان کے ایک بزرگ صحافی سعید احمد نعمانی نے سیاستدانوں صحافیوں اوربیورکریٹس کے متعلق نہایت اہم ترین اور سبق آموز تجربات اور مشاہدات بیان کیے۔

ان میں سے سیاستدان اور صحافی کے واقعات بیان کرنا چاہتا ہوں۔ ایک تحریک آزادی کے اہم رہنما فدائے ملت اور حضرت قائد اعظم کے قریبی ساتھی میر جعفر خان جمالی اور دوسرے قابل رشک کردار کے مالک صحافی ملک رمضان بلوچ ہیں۔ یہ دونوں شخصیات دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں اور ان دونوں کا تعلق نصیرآباد ڈویژن سے تھا جس سے میرا تعلق بھی ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں ان کے علاقے سے تعلق رکھتا ہوں۔ محترم سعید احمد نعمانی کے مطابق واقعات کچھ اس طرح کے ہیں۔

جب ملک میں صدارتی انتخابات ہو رہے تھے جس میں ایک طرف ملک کے سیاہ و سفید کے مالک فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان تھے تو دوسری جانب مادرِ ملّت محترمّہ فاطمہ جناح ان کے مد مقابل تھیں۔ ایوب خان نے میر جعفر خان جمالی سے اپنے حق میں ان کے قبیلے کا ووٹ مانگا۔ جعفر خان جمالی نے کسی نتیجے کی پرواہ کیے بغیر ان کو جواب دیا کہ حیوانات میں صرف گدھا ایسا جانور ہے کہ اس کا بچہ اپنی ماں سے آگے آگے چلتا ہے۔ لہٰذا ہم اپنی قوم کی ماں یعنی فاطمہ جناح کے خلاف کسی صورت نہیں ہو سکتے خواہ کچھ بھی ہو جائے میں اور میرا قبیلہ آپ کے خلاف مادرَ ملّت کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کریں گے۔ البتہ انہوں نے ایوب خان پر یہ بھی واضح کیا کہ اگر خدانخواستہ بھارت کبھی پاکستان پر حملہ کرے تو میں اور میرے قبیلے کے ہزاروں افراد آپ کی قیادت میں پاک فوج کے شانہ بشانہ جنگ کے محاذ پر وطن کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کر دیں گے۔

سینیئر اور بہادر صحافی ملک رمضان بلوچ کے متعلق انہوں نے بتایا کہ ملک رمضان بلوچ نے عام انتخابات میں اپنے قبیلے کے سربراہ سردار چاکر خان ڈومکی کے مقابلے میں کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے۔ سردار چاکر خان ڈومکی نے ملک رمضان بلوچ کو حکم دیا کہ وہ میرے مقابلے سے دستبردار ہو جائے لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ چاکر خان نے میر جعفر خان جمالی کے فرزند میر تاج محمد جمالی جو کہ بعد میں وزیر اعلیٰ بھی منتخب ہوئے ان سے کہا کہ وہ ملک رمضان کو راہِ راست پر لائے۔

میر تاج محمد نے ملک رمضان کو کسی طرح سے طلب کر کے اپنے گاٶں روجھان جمالی میں یرغمال بنا لیا اور اس سے چاکر خان کے حق میں دستبردار ہونے کا کہا اور یہ پیش کش بھی کی کہ وہ جتنا پیسہ چاہے گا اس کو ہم فراہم کردیں گے۔ ملک رمضان نے کہا کہ میر صاحب آپ مجھے کتنی رقم دے سکتے ہیں جواب ملا کہ ہم آپ کو 7 لاکھ روپے دیں گے۔ اس وقت کے 7 لاکھ آج کے 7 کروڑ روپے سے زیادہ تھے۔ ملک رمضان نے جوش میں آ کر میر تاج محمد کے محافظ سے بندوق چھین کر میر تاج محمد کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے میری قیمت کا غلط اندازہ لگایا اس بندوق سے آپ مجھے فائر کر کے قتل کر دیں میری قیمت یہی ہے۔

بعد کی تاریخ بتاتی ہے کہ مذکورہ انتخابات میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح جنرل ایوب خان کے مقابلے میں ہار گئی تھیں اور سردار چاکر خان ڈومکی کے مقابلے میں صحافی ملک رمضان بلوچ بھی ہار گئے تھے !

میر جعفر خان جمالی کے دو فرزند تھے میر تاج محمد اور میر سکندر حیات جبکہ میر ظفر اللّٰہ جمالی ان کے بھتیجے ہیں۔ میر ظفراللّٰہ خان جمالی 2002 میں پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے وہ اس سے پہلے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ میر تاج محمد جمالی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے تھے۔ میر سکندر حیات بلوچستان کے چیف سیکریٹری اور وفاقی سیکریٹری بھی رہ چکے ہیں۔ وہ اپنے والد میر جعفر خان جمالی کی طرح بڑے با اصول شخصیت کے مالک تھے۔

جعفر خان کے پوتے اور تاج محمد کے بڑے فرزند میر چنگیز خان جمالی وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔ جن کے بارے میں ہمارے صحافی دوست بتاتے ہیں کہ وہ وقت کے بہت پابند ہیں اگر کسی کو ملاقات کے لئے وقت دینا ہو یا کہیں مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیے گئے ہوں ایک منٹ بھی تاخیر نہیں کرتے بلکہ ایک دو منٹ مقررہ وقت سے پہلے پہنچ جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).