خیر مجھے کیا


کل جو دانے ادھار لیے تھے ختم ہو گئے۔ آج کیا کھاؤں گی؟ میرا مالک گن گن کر دیتا تھا۔ کبھی بھی اتنا نہ ہوا کے جھولی بھر دیتا۔ میں بھی سیر ہو جاتی۔ بھوک عجیب شے ہے جب لگتی ہے تو نہ ثواب دیکھتی ہے نہ گناہ۔ بس لگ جاتی ہے۔ مجھے بھی بھوک لگی تھی۔ مجھے سمجھ نہ آیا آقا سے کیا کہوں۔ مانگوں یا نہیں؟ مجھے مانگنے سے شرم آتی تھی اور شاید اسے دینے سے

میں نے ایک اور دن فاقے سے گزار لیا۔ صبح آنکھ کھلی تو وہ جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ میں نے جلدی جانے کی وجہ پوچھنی چاہی مگر پھر سوچا رہنے دو ہوگا کوئی کام مجھے کیا۔ کوئی نیا منصوبہ ہو گا یا کوئی نئی مصروفیت۔ جلدی جائے یا دیر سے مجھے کیا فرق پڑتا ہے۔ اور اگر میں نے پوچھا تو کون سا مجھے سچ بتایا جائے گا۔ کون سا میں نے پیچھا کر لینا ہے اس لیے جیسا چل رہا ہے چلنے دو

عاطف نے ناشتہ تیار کر لیا تھا۔ باورچی خانے سے آنے والی آوازوں سے ظاہر تھا کچن میں ناشتہ بن رہا ہے۔ میں جان کر لیٹی رہی۔ وہ بچوں سے باتوں میں مصروف تھا۔ چلو کسی کی بھوک کا تو خیال ہے تمہیں۔ میں نے دل میں سوچا۔ نیند پوری ہونے کے باوجود میں بستر سے نہ اٹھی۔ لیٹے لیٹے میں نے گیٹ بند ہونے کی آواز سنی۔ چلو چلا گیا۔ میں نے بستر تو چھوڑ دیا مگر ابھی میرا دماغ وہیں کہیں کھویا ہوا تھا۔ اب یہ سیدھا آفس تو نہیں گیا ہو گا۔ اتنی صبح کون آفس جاتا ہے؟ ہاں اگر کسی کو پک کرنا ہو تو یہ الگ بات ہے۔ یا شاید کسی کے گھر جانا ہو کسی ضروری کام سے۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ خیر مجھے کیا؟

احمد اپنے کیمسٹری کے پیپر میں مدد کے لیے پڑوس میں اپنے دوست علی کے گھر جانے والا تھا، مگر ابھی تک سو رہا تھا۔ رات کو اس نے مجھے کہا تھا ماما مجھے جگا دینا۔ شکر ہے مجھے یاد آگیا۔ میں نے آواز دی تو پہلی آواز سے جاگ گیا۔ میں نے کہا واہ ایسے اسکول کے لیے بھی اٹھ جایا کرو۔ چلو ناشتہ تیار ہے ناشتہ کر لو۔ عاطف نے ناشتہ لگا دیا تھا۔ میں بھی آکر بیٹھ گئی۔ رجا اور سہیل اپنے کھیلوں میں مصروف تھے۔ بابا سے خوب گپ شپ لگ چکی تھی تو میرا اٹھنا ان کو کچھ زیادہ اہم نہ لگا۔ وہ اپنے کھلونوں میں غرق تھے۔ میں نے دونوں کو پیار سے چھیڑا تو رجا نے چیخ کر کہا ماما ڈسٹرب نہ کریں۔ میں نے بولا اوکے بیٹا ہیو فن

احمد ناشتہ کر کے علی کے گھر چلا گیا۔ چھوٹے بچے حسب معمول کھیل رہے تھے۔ عاطف نے ناشتے کے برتن سمیٹ دیے۔ میں ابھی چائے پی رہی تھی پاس کھڑا دیکھ کر میں نے اسے کہا جاؤ تم نہا دھو لو ابھی کھانے میں بہت وقت ہے۔ وہ میرا حکم سن کر چلا گیا۔ میں صوفے پر پاؤں پسار کر لیٹ گئی اور ٹی وی پر کسی اچھے پروگرام کی کھوج میں لگ گئی

عاطف واپس آیا تو میں نے اسے کہا بچوں کو جوس بنا دو۔ اور پھر آکر میرے پاؤں دباؤں۔ عاطف بہت فرماں برداری سے باورچی خانے میں چلا گیا۔ اور چند لمحوں میں جوس کے دو گلاس لیے آگیا۔ اس کی عمر میرے احمد سے شاید دو یا پھر تین سال زیادہ ہو گی مگر سمجھداری میں اسے کہیں آگے تھا۔ غریب کے بچے ویسے بھی جلدی جوان ہو جاتے ہیں۔ یا کر دیے جاتے ہیں۔ بھوک بہت بری شے ہے۔ سب بھلا دیتی ہے

خیر مجھے کیا؟ میرے پاؤں دباؤ۔ میں نے اسے کہا تو وہ یکایک میری طرف گھورنے لگا۔ میں نے بولا کیا ہوا؟ تو کہنے کہا بی بی ماں بیمار ہے پیسے چاہیے۔ میں نے بولا ٹھیک ہے رات کو یاد دلانا جب صاحب گھر آجائیں۔ یہ سن کر ایک دم اس کی بانچھیں کھل گئیں۔ میں نے کہا چلو اب اپنا کام کرو۔ وہ بیٹھ گیا اور ہولے ہولے میرے پیر دبانے لگا۔

اس کے ہاتھوں میں عجیب جادو تھا یا شاید نشہ۔ مجھے نیند آنے لگی۔ نیند تو مجھے اپنے بستر پر ہی آتی تھی۔ میں سو گئی۔

جب آنکھ کھلی تو احمد آگیا تھا۔ میں نے اسے پوچھا پیپر کی تیاری ہو گئی تو بولا جی ماما۔ میری نیو واچ دیکھیں۔ میں نے حیرت سے کہا یہ کہاں سے آئی؟ علی کی ماما لائیں ہیں ہم دونوں کی لیے۔ ارے واہ یہ آنٹی تو بہت اچھی ہیں۔ پچھلے ہفتے بھی تمہارے لیے کچھ لائیں تھیں نہ جب دبئی سے آئیں تھیں۔ جی ماما۔ اچھا چلو علی کے لیے بھی کچھ لے لینا جب ہم مارکیٹ جائیں گے کل تو۔ رہنے دیں ماما احمد نے جواب دیا۔ کیوں؟ میں نے پوچھا وہ ویسے ہی اسے ضرورت نہیں ہے اس کے پاس سب کچھ ہے۔ میں خاموش ہو گئی ہو سکتا ہے دونوں میں کوئی لڑائی ہو گئی ہو اسی لیے منع کر رہا ہے خیر کوئی بات نہیں۔

رات کو جب رجب واپس آئے تو میں نے کھانے کی میز پر عاطف کو پیسے دلوا دیے۔ وہ پیسے لے کر خوشی خوشی باورچی خانے میں چلا گیا۔ رجب بہت تھکے ہوئے تھے وہ سونے چلے گئے۔ میں نے رجا سے بولا بیٹا آپ ماما کے ساتھ واک کرنے جائیں گی؟ رجا خوشی خوشی بولی جی ماما۔ میں نے عاطف کو آواز دی۔ اور ہم کالونی کے گراؤنڈ میں چلے گے۔ وہاں زیادہ لوگ نہ تھے۔ عاطف ہمارے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ گراؤنڈ میں جا کر میں نے رجا سے کہا جاؤ بیٹا کھیلو۔ رجا جھولے لینے چلی گئی۔ عاطف نیچے میرے پیروں کے پاس بیٹھ گیا۔ میں نے اس کی طرف دیکھے بنا کہا ”اب خوش ہو“؟ ایک دم کھل کر مسکرایا اور چمکیلی آنکھوں سے مجھے دیکھ کر بولا بہت خوش۔ میں مسکرا دی اور صرف اتنا کہا ”جتنا گڑھ ڈالوں گے اتنا میٹھا ملے گا“ وہ مسکرایا

ہم واپس آنے لگے تو علی پر نظر پڑی وہ سفری بیگ لیے اپنے گھر کے دروازے سے داخل ہو رہا تھا۔ یہ اس وقت کہاں سے آرہا ہے؟ میں نے دل میں سوچا۔ صبح تو احمد کے ساتھ اسٹڈی میں مصروف تھا۔ خیر ہو گا کوئی کام کہیں گیا ہوگا۔ مگر اتنا بڑا بیگ؟
میں کافی تھک گئی تھی۔ کمرے میں پہنچی تو موبائل کی لائٹ آف ہو گئی۔ مگر رجب کا لاسٹ سین ایک منٹ پہلے کا تھا۔ کوئی ہو گا یا پھر شاید ہوگی۔ خیر مجھے کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).