ننگے لوگوں کی ننگی کہانی


منظر چار

ایک پرائیویٹ ہسپتال کا منظر ہے۔ ٹی ٹو بیڈ پر پڑا ہے۔ ساتھ میں ایک نرس ہے جواس کی مرہم پٹی کر رہی ہے۔ ٹی ٹو اب ہوش میں ہے۔ اتنی دیر میں ڈاکٹر آتا ہے وہ چیک کرتے ہوئے نرس سے پوچھتا ہے :

ڈاکٹر : اس کے ساتھ کوئی ہے؟
نرس : سر دو لڑکے آئے تھے جو اسے یہاں چھوڑ گئے بہت بری حالت میں تھا۔

ڈاکٹر : ( ایک دم ٹھٹک کر ) نرس! یہ کوئی خیراتی ہسپتال نہیں، دو لاکھ خالی کرایہ دیتا ہوں اس کا، ایسے نہیں چلے گا۔ ( امجد امجد۔ کدھر مر گیا تُو)
امجد ہسپتال میں سوپیر ہے ڈاکٹر کی آواز سن کر بھاگتا بھاگتا آتا ہے۔

امجد : سلام ساب!
ڈاکٹر : ریسکیو والوں کو فون کرو اسے اٹھا کر لے جائیں سرکاری ہسپتال

امجد : ساب یہاں سے؟
ڈاکٹر : یہاں سے نہیں گدھے! اسے باہر چوک میں کسی جگہ بٹھا اور ریسکیو والوں کو فون کر کی کوئی ٹکر مار گیا ہے اسے۔ سمجھ گیا

امجد : جی ساب سمجھ گیا
ڈاکٹر جانے لگتا ہے کہ پھر کچھ سوچ کر رک جاتا ہے، نرس کی طرف دیکھتا ہے اور کہتا ہے

ڈاکٹر : سنو! اس کی یہ پٹیاں شٹیاں اتار دو، تاکہ یہ زخمی نظر آئے۔

نرس : رائٹ سر
ڈاکٹر منظر سے غائب ہوجاتا ہے اور نرس اس کی پٹیاں اور بینڈجز اتارتی ہے جس پر تکلیف سے ٹی ٹو چلا تا اور روتا ہے، بیک گراؤنڈ میں دکھی گانا ہے اور اسٹیج پر اندھیر چھا جاتا ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔

منظر پانچ

سرکاری ہسپتال کی وارڈ،
کرادر : وارڈ بوائے اور نرس

سرکاری ہسپتال کا منظر ہے، ٹی ٹو بیڈ پر بندھا پڑا ہے۔ اور وارڈ بوائے کسی کو فون کر رہا ہے۔
وارڈ بوائے : ہاں بھئی بیس ہزار تیار رکھ

فون پر دوسری طرف سے آواز : بہت کمینگی آگئی تیرے میں بیس ہزار بہت زیادہ ہیں۔
وارڈ بوائے : فریش باڈی ہے بالکل فریش، بیس ہزار سے ایک روپیہ بھی کم نہیں ہوگا۔

فون پر دوسری طرف سے آواز : دیکھ لے بھئی میڈیکل کالج کا معاملہ ہے، لاش لاوارث ہو۔
وارڈ بوائے : ٹی ٹو کی طرف دیکھ کر شیطانی ہنسی ہنستے ہوئے۔ سو فی صد لاوارث۔

فون پر دوسری طرف سے آواز : اوکے ڈ ن کل رابطہ ہوگا۔ خدا حافظ
وارڈ بوائے : خدا حافظ

نرس جو ٹی ٹو کے پاس ہی کھڑی ہے اور اس کے زخم کو صاف کر رہی ہے بولتی ہے۔
نرس : کس لاش کی بات کررہا تھا تُو؟

وارڈ بوائے : ( شیطانی ہنسی ہنستے ہوئے، ٹی ٹو کو دیکھتے ہوئے ) لاش تو تیرے سامنے ہی ہے۔ چلتے پھرتے بیس ہزار روپے ہیں یہ اچھی طرح دیکھ بھال کر اس کی۔

نرس : کیا مطلب ہے تیرا؟
وارڈ بوائے : وہی مطلب ہے جو تُو سمجھ رہی ہے! ذومعنی انداز میں کہتا ہے۔
نرس : تو کیا تُو اسے بھی۔ ( جملہ ادھورا رہ جاتا ہے )

وارڈ بوائے : بس ایک انجکشن ہی تو لگنا ہے اور صبح تک بیس ہزار روپے۔ ( انگلیوں سے نوٹ گننے کی اداکاری کرتا ہے )
نرس : تجھے خدا کا بالکل خوف نہیں! نجانے کتنی بیس ہزار روپے تم نے ایسے کمائے، کتنی لاشوں کا بوجھ اٹھائے گا تُو اور؟

وارڈ بوائے : ( نرس سے بے تکلف ہونے کے انداز میں ) ۔ غم نہ کر شیلا! تجھے بھی تیرا حصہ ملے گا جیسے وڈے ڈاکٹر ساب کو ملتا ہے۔ ( قہقہہ) ۔ بس دو گھنٹے اور بس شفٹ چینج ہوجائے پھر اس چُوہے کو بھیجتے ہیں اللہ میاں کے پاس۔ ( قہقہ)

وارڈ بوائے کمرے سے نکل جاتا ہے، ٹی ٹو کی آنکھوں میں آنسو ہیں، رسی سے بندھا ہے، نرس کچھ سوچتی ہے۔ کھڑکی سے باہر دیکھتی ہے، جیسے کوئی فیصلہ کرنے لگی ہو، وال کلاک پر شفٹ بدلنے میں کچھ وقت ہوتا ہے، نرس گھڑی دیکھتی ہے، ٹی ٹو کو کھولتی ہے اور بڑے محتاط انداز میں اس کا ہاتھ پکڑ کر وارڈ سے بھگا دیتی ہے۔ آخری بار ٹی ٹو اسے دیکھتا ہے تو نرس روتے ہوئے کہتی ہے جا جھلے بھاگ جا ورنہ یہ تجھے مار کے بیچ دیں گے۔ تو جھلا نہیں یہ دنیا جھلی ہے۔ جا بھاگ جا۔ آگے تیری قسمت۔ چل چل بھاگ جا یہاں سے۔

ٹی ٹو منظر سے غائب ہوجاتا ہے۔ بیک گراؤنڈ میں دکھی گانا ہے اور سٹیج پر رفتہ رفتہ اندھیرا چھا رہا ہے۔ نرس رو رہی ہے اور پریشان بھی ہے کہ کہیں وارڈ بوائے نہ آجائے اور اسٹیج پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔

منظر چھے

شام کا منظر ہے، بازار ہے جہاں مختلف لوگ آ جا رہے ہیں کچھ نے چھابڑی لگائی ہوئی ہے، وہیں ایک طرف ٹی ٹو ننگے پاؤں زخمی حالت میں بیٹھا ہے، لوگ فون پر خوش گپیوں میں مصروف ہیں، ایک چھابڑی والے سے ٹی ٹو کوئی پھل اٹھاتا ہے تو وہ چھابڑی والا اسے زدوکوب کرتا ہے مارتا پیٹتا ہے اور اس کی قمیض پھاڑ دیتا ہے اور پھل چھین لیتا ہے۔ پھر کئی شخص وہاں سے گزرتے ہوئے اس کی گود میں کوئی سکہ پھینکتا ہے اور پھر لوگ بھی سکے پھینکنا شروع کردیتے ہیں، ٹی ٹو کے لیے یہ سکہ نئی چیز ہے لہٰذا وہ غور سے اُسے دیکھنا شروع کردیتا ہے، پاس میں دو نشئی قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو ایک معذور فقیر کے پاس ہی کھڑے ہوتے ہیں، ان کی نظر ٹی ٹو پر پڑتی ہے۔

ایک نشئی : دیکھ رے منشا! تو نے دیکھا ہے کبھی اس چھورے کو؟
دوسرا نشئی : نئیں رے، میں تو پہلی بار دیکھوں اسے یہاں

ایک نشئی : دیکھ بھئی کہیں مرشد نہ ہو
دوسرا نشئی : ( دائیں بائیں دیکھ کر ) مجھے تو گھر سے بھاگا ہُوا چھورا لگتا ہے، امارے کام کا اے، سیدھا سیدھا پنج ہزار کی دیہاڑ ہے۔

پہلا نشئی : گھنٹہ ڈیڑھ دیکھتے ہیں اس کو پھر ڈیرے پر لے جائیں گے شہرمیں مال گھٹ گیا ہے اج کل۔
دوسرا نشئی : ہاں وہاں ٹھیک رہے گا۔

اسی دوران اسٹیج پر ٹی ٹو کی بہن دکھائی دیتی ہے جو صبح سے نجانے کہاں کہاں اس تلاش کرتے ہوئے لڑی سے لڑی ملاتی ہوئی یہاں پہنچ جاتی ہے اس کے ہاتھ میں ٹی ٹو کی تصویر ہے اور اس کا شوہرملک شہہ سوار اس کے ہمراہ ہے جو لوگوں کو روک روک کر تصویر دکھا کر پوچھ رہی ہے کہ کیا آپ نے اس شخص دیکھا ہے؟ ، لوگ دیکھتے ہیں اور معذرت کر کے آگے چل پڑتے ہیں۔ اسی دوران کوئی شخص اسے بتلاتا ہے کہ ہاں اس نے اسے یہیں کہیں دیکھا تھا بھیک مانگتے ہوئے۔ وہ دیوانوں کی طرح ایک دو فقیروں کو دیکھتی ہیں، وہ نشئی بھی ٹھٹھک جاتے ہیں، اسی دوران ٹی ٹو اور نایاب دونوں کی نظر ملتی ہے، نایاب اس کی طرف بھاگتی ہے تو زندگی میں پہلا اور آخری لفظ روتے ہوئے بولتا ہے ادا کرتا ہے

ٹی ٹو: ( ماں )
نایاب : روتے ہوئے پاس آتی ہے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی ہے، اس کی گود میں پڑی ہوئی بھیک پھینکتی ہے ٹی ٹو کوبازوؤں سے پکڑ کراٹھاتی ہے اوراپنے زخمی بھائی کو ساتھ لے جاتی ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔

آخری منظر

ٹی ٹو کا کمرہ

ٹی ٹو کمرے میں پٹیوں کے ساتھ داخل ہوتا ہے، اپنے کمرے کو دیکھتا ہے ایک طرف چارپائی ہے، گیند پڑا ہوا ہے وہی پلیٹ ہے، کوڑا ہے اور چارپائی کے پائے کے ساتھ زنجیر بندھی پڑی ہوئی ہے، ٹی ٹو اندر داخل ہوتا ہے بیک گراؤنڈ سے اس کی سسکیوں بھری آواز آتی ہے۔

ٹی ٹو کی آواز : سچیا ربا! تُو سچا ہے یہ دنیا جھوٹی ہے، یہ دنیا ظالم ہے، نہیں دیکھنی مجھے تیری دنیا، دیکھ لی تیری دنیا، میں تجھ سے راضی جس میں تیری رضا میں اس میں راضی سچیا ربا، میں تجھ سے راضی، روتا ہے، بیک گراؤنڈ میں دکھی میوزک ہے، گیند کو اٹھاتا ہے پلیٹ میں رکھتا ہے،

کوڑے کو چومتا ہے اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا زنجیر کے پاس آتا ہے اور ہنستے روتے ہوئے زنجیر کو اپنے پاؤں سے باندھ کر بیٹھ جاتا ہے، اور میوزک، اور سٹیج پر تاریکی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2