ننگے لوگوں کی ننگی کہانی


پہلا منظر

ایک تاریک کمرا، جس میں ایک ٹوٹی ہوئی ادوائن سے بنی ہوئی چارپائی

کردار : ٹی ٹُو : ایک چھوٹے سر والا ابنارمل نوجوان
نایاب : ٹی ٹُو کی شادی شدہ بڑی بہن جس کے پاس ٹی ٹُو رہتا ہے
ملک شہ سوا ر: ایک اکھڑ مزاج، کریہہ الشکل ظالم شخص جو نایاب کا شوہر ہے اور جسے ٹی ٹُو سے سخت اذیت ہے جو چاہتا ہے کہ کب ٹی ٹو مرے اور ساری جائیداد اس کی اہلیہ اور اس کے نام ہوجائے۔
۔

منظر : ایک کمرے کا منظر ہے، کمرے تاریک ہے اور سپاٹ لائٹ میں ایک چارپائی کو دکھایا جاتا ہے جس پر ٹیٹو ( شاہ دولا۔ یعنی چھوٹے سر والا ) بیٹھا ہوا ہے۔ جس کا پاؤں چارپائی کے ایک پائے سے زنجیر کے ساتھ بندھا ہوا ہے تاہم تماشائیوں کو اس کا معلوم نہیں ہوتا۔ ٹیٹو یوں بیٹھا ہوا ہے جیسے کوئی کتاب پڑھ رہا ہو تماشائیوں کو معلوم نہیں ہو پاتا کہ یہ ذہنی معذور شخص ہے جب کے اس کے ہاتھ میں ایک پلیٹ ہوتی ہے اس میں سے ایک گیند نیچے گرتی ہے تو ٹی ٹو اسے پکڑنے کے لیے چھلانگ لگاتا ہے تاہم زنجیر چارپائی کے ساتھ بندھی ہونے کی وجہ سے اس کے ہاتھ اس گیند تک نہیں پہنچ پاتے۔

ٹی ٹو کا کردار اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ کوشش کرتا ہے مگر اس کی رسائی گیند تک نہیں ہو پاتی۔ اس کے منہ سے رال ٹپک رہی ہے ٹی ٹو چونکہ بول نہیں سکتا لہٰذا عجیب طریقے سے روتا ہے۔ کہ اسی دوران بیک گراؤنڈ سے دروازہ کھلنے کی آواز آتی ہے۔ جس پر ٹی ٹو ٹھٹک جاتا ہے۔ دروازہ کھلتا ہے اور کسی کے قدموں کے آواز آتی ہے۔ سپاٹ لائٹ دکھاتی ہے کہ مردانہ قدم ٹی ٹو کی جانب بڑھ رہے ہیں تو ٹی ٹو خوف زدہ ہو کر گیند کا خیال چھوڑ دیتا ہے اور ڈر کر پیچھے سرکنے لگتا ہے۔

اتنی دیر میں مردانہ قدم گیند کو ٹھوکر مارتے ہیں تو گیند رینگ کر ٹی ٹو کے پاس پہنچ جاتی ہے۔ لیکن ڈر کے مارے گیند کو نہیں اٹھاتا بلکہ چیخنا چلا نا شروع کردیتا ہے۔ کیمرہ آہستہ روی سے اب مرد کردار کو پیروں سے منہ تک دکھاتا ہے۔ یہ ایک کریہہ الشکل ( بھیانک شکل والا کوئی آدمی ہے ) جس کے ہاتھ میں چمڑے کا کوڑا ہے۔ ٹی ٹو اس کو دیکھ کر بہت گھبرا جاتاہے گویا ٹی ٹو کا اس سے کوئی گہرا تعلق ہے۔

ملک شہ سوار: ( غصے سے ٹی ٹو سے ) گیند اٹھا!
ٹی ٹو: ( رال ٹپک رہی ہے آنکھوں میں آنسو ہیں : ایک بے چین پرندے کی طرح کبھی دائیں کبھی بائیں ہوتا ہے )

ملک شہ سوار: ( شدید گرج کے ساتھ) گیند اٹھا۔ چُوہے!
ٹی ٹو ڈر اور خوف کے مارے گیند اٹھانے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتا ہی ہے کہ مردزوردار طاقت سے گیند پر کوڑا مارتا ہے جو سیدھا ٹی ٹُو کے ہاتھ پر لگتا ہے اور ٹی ٹو بلبلا کر تڑپتا ہے اوررونا شروع کردیتا ہے، کہ اتنے میں ایک زنانہ آواز آتی ہے۔

زنانہ آواز تقریباً چیختی ہوئی بھاگتی ہوئی منظر میں داخل ہوتی ہے اور آکر اپنے بھائی کو بچاتی ہے اور پیار سے روتے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی ہوئی مرد کردار ( شہ سوار ) سے کہتی ہے :

نایاب : تُو کتنا ظالم ہے ملک! کیوں اس بے زبان فقیر کی جان کے پیچھے پڑا ہے؟ ڈر اُس وقت سے جب غیب سے اندھیر سرکتا ہُوا تیرا تعاقب کرتا ہوا آجائے اور تجھے بھاگنے کا راستہ بھی نہ ملے۔ ( روتی ہے )

ملک شہ سوار : بکواس کرتی ہے تُو ( چنگھاڑتے ہوئے اُس کی چوٹی پکڑ لیتا ہے ) میرے سامنے زبان لڑاتی ہے، ملک شہ سوار کے سامنے جس کے ویر سے مینہ وی کنبھ کنبھ کے وسدا ہے، تیری گُت پُٹ کے اسی چوہے کے پیر کی زنجیر بنا دوں گا زیادہ زبان لڑائی تو۔ سو مرتبہ کہا ہے کہ جب میرے یار آئے ہوئے تو اِ س چوہے کے کمرے کو جندرا مار دیا کر، نہ مرتا ہے اور نہ ہمیں جینے دیتا ہے۔

نایاب : مر جائے گا ملک، مرجائے گا اک دن یہ وی۔ پڑ جائے گی تیرے وی سینے میں ٹھنڈ۔ پر یاد رکھ ملکا اے تیرے سینے کی اگ کدھرے تینوں ای ساڑ کے سوا نہ کردے۔ ( روتے ہوئے کہتی ہے )

ملک : ( بے انتہا غصے میں ) : پھر زبان لڑاتی ہے ( پھر بیوی کی چوٹی پکڑتا ہے زور سے کھینچتا ہے ) ، تم دونوں کو مار دوں گا۔

اسی دوران ٹی ٹُو اٹھ کے آتا ہے اور ملک کے ہاتھوں میں اپنے دانت گاڑ دیتا ہے جس سے اُس نے اس کی بہن کی چوٹی پکڑی ہوتی ہے۔ ملک شہ سوار چیخ کر نایاب کی چوٹی چھوڑ دیتا ہے اور غصے سے دونوں پر کوڑے برسانا شروع کردیتا ہے۔ بیک گراؤنڈ میں انتہائی دکھی گانا چلتا ہے ( دُکھا ں دی روٹی۔ سُولا ں دا سالن۔ آہیں دا بالن بال نی۔ مائے نی میں کنوں آکھاں ) اسی دوران سپاٹ لائٹ آف ہوجاتی ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

منظر 2 :

اسٹیج پر اُسی چارپائی پر ٹی ٹو بیٹھا ہُوا ہے چہرے پر زخم اور نیل کے نشان ہیں رورہا ہے۔ ہاتھ میں وہی پلیٹ اوروہی گیند ہے۔ ٹی ٹو آسمان کی طرف دیکھتا ہے کہ بیک گراؤنڈ سے آواز آتی ہے جو دراصل ٹی ٹُو کی ہے۔

ٹی ٹو : ( ٹی ٹُو سوچ رہا ہے جسے بیگ گراؤنڈ وائس سے تماشائیوں کو بتایا جائے گا) ربا سچیا! تیرے جگ لئی میں دولے شاہ کا چوہا ہوں، جھلا ہوں، مصیبت ہوں، بوجھ ہوں۔ پر ہُوں تو میں تیرا بندہ، پچھلے کنے ای وروں سے میری دنیا، اک منجی، اک زنجیر تے اک ہنیرا کمرا ہے کاش میں تیری دنیا بھی دیکھ سکوں، کاش! اسی دوران گیند پھر پلیٹ سے نیچے گرتا ہے اور ٹی ٹو پھرگیند کو پکڑنے کے لیے چھلانگ لگاتا ہے اور اس مرتبہ وہ گیند کو پکڑ لیتا ہے، ٹی ٹو حیران ہوتا ہے کہ اس نے گیند کیسے پکڑ لی، سپاٹ لائٹ دکھاتی ہے کہ زنجیر اس کے پاؤں سے کھلی ہوئی ہے۔ صبح صادق کا وقت ہے کہ دروازے پر گھنٹی ہوتی ہے اس کی بہن کمرے سے نکل کر دروازے پر دودھ لینے جاتی ہے اور دودھ لے کر دروازہ بند کرکے واپس اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے۔ ٹی ٹو اپنے کمرے سے گھر کے دروازے پر جاتا ہے اور کسی طرح دروازہ کھول کر باہر نکل جاتا ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔

منظر نمبر 3

گلی کا منظر ہے، صبح صادق کا وقت ہے۔ گلی میں ایک جگہ مسجد کی عمارت ہے۔ مسجد سے نمازی نماز پڑھ کر نکل رہے ہیں۔ دو تین آدمی ٹوپی پہنے ہوئے بازو ؤں کے کف تہہ کرتے ہوئے مسجد جاتے اور نکلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ٹی ٹو مسجد کو دیکھ رہا ہے اور بیک گراؤنڈ سے ٹی ٹو کی آواز آتی ہے۔

ٹی ٹو کی آواز : اللہ تیری دنیا کہتی سوہنی ہے، تیرے گھر کتنا سوہنا ہوگا، اندر جا کر دیکھتا ہوں۔
( ٹی ٹو مسجد کی طرف جاتا ہے مسجد میں داخل ہونے لگتا ہے کہ ایک آدمی اُس کے سینے پر ہاتھ رکھ کے روک دیتا ہے اور بولتا ہے

آدمی : اوئے کدھر؟ چل شاباش بھاگ اِدھر سے!

ٹی ٹو اشارے سے یہ کہنے کی کوشش کرتا ہے کہ اُسے اندر جانا ہے، لیکن وہ شخص اسے دھکادے کر ایک طرف کو بھگا دیتا ہے۔ ٹی ٹو کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں اور ایک طرف کو چل پڑتا ہے۔ ایک جگہ پر بیٹھ جاتا ہے چڑیوں کی آواز پر خوش ہوتا ہے تالیاں بجاتا ہے، گلی سے اکا دکا لوگ گزرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ایک سوٹڈ بوٹڈ آدمی کو دیکھتا ہے تو بیک گراؤنڈ سے ٹی ٹو کی آواز آتی ہے
( ٹی ٹو کی آواز: کتنا اچھا آدمی ہے، اس سے بات کرکے دیکھتا ہوں )

ٹی ٹو جس کی رال ٹپکی ہوئی ہے اور اٹھ کر اُس آدمی کی طرف بڑھتا ہے جا کر اُس کو بازو سے پکڑتا ہے کہ آدمی ٹھٹھک جاتا ہے اور اسے دھتکار دیتا ہے، ٹی ٹو پھر اس کا بازو پکڑنے لگتا ہے کہ وہ آدمی اُسے تھپڑ مارتا ہے اور بولتا ہے :

سُوٹ والا آدمی : پتہ نہیں کدھر سے آگیا پاگل صبح صبح سارے سوٹ کا ستیا ناس کر دیا ہے۔ ( اور حقارت سے دیکھتے ہوئے گزر جاتا ہے )

ٹی ٹو اپنی دھُن میں روتا ہوا چل رہا ہوتا ہے کہ ایک موٹر بائیک پر ( اسٹیج پر سائیکل لائی جا سکتی ہے یا گتے کی بنی موٹر بائیک دکھائی جا سکتی ہے ) سوا ر شخص موبائیل فون پر کسی سے خوش گپیوں میں مصروف ہوتا ہے کہ بے دھیانی میں ٹی ٹو کر ٹکر ماردیتا ہے۔ ٹی ٹو کو سخت چوٹ آتی ہے اور وہ گر کر بے ہوش ہو جاتا ہے۔ موٹر بائیک سوار آگے پیچھے دیکھتا ہے، اور اپنا موبائیل فون اٹھاتا ہے اور ٹی ٹو کے زخمی اور بے ہوش ہونے پر دکھی ہونے کی بجائے اپنے موبائیل فون کا تھوڑا ساٹوٹنے پر افسوس کرتا ہے اور فون اٹھا کر بائیک پر فرار ہوجاتا ہے۔

ٹی ٹو وہاں بے ہوش پڑا ہے۔ سورج کی روشنی زیادہ ہوجاتی ہے مرد و خواتین دفاتر اور سکول کالج جارہے ہیں ٹی ٹو وہیں پڑا ہے لوگ دیکھتے ہیں گزر جاتے ہیں، ایک بھلا مانس آدمی آتا ہے اور ٹی ٹو کو ایک طرف گھسیٹ کر کسی دروازے کے آگے ڈال دیتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ گھر کا مالک کچھ دیر بعد دروازہ کھولتا ہے تو آگے ایک انسان کو بے سدھ دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ کوئی لاش ہے بیٹھ کر نبض دیکھتا ہے نبض چل رہی ہے۔ یہ آدمی رحم دل ہے۔ ایک دو آدمیوں کو روکتا ہے اور تماشائی دیکھتے ہیں کہ وہ اسے بازؤں اور ٹانگوں سے اٹھاتے ہیں ( گویا اسے ہسپتال لے کر جا رہے ہیں ) سٹیج پر لائٹس آف اور سارے کردار اندھیرے میں اسٹیج سے چلے جاتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2