یٰسین کا لال


اللہ کی بات سے بڑھ کر اور کس کی بات سچی ہو سکتی ہے؟ پس جب اللہ نے کہہ دیا کہ مال اور اولاد انسان کے بہت بڑی آزمائش ہیں تو شک و شبہات کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔ وہ اولاد دے کر بھی آزماتا ہے، نہ دے کر بھی اور دے کر چھین کر بھی۔ سادے الفاظ میں کہیے تو ہم میں سے ہر کوئی ایک آزمائش، ایک امتحان سے ہر وقت گزر رہا ہوتا ہے بس ہر ایک کا پرچہ الگ ہوتا ہے۔ اولاد ایک ایسی نعمت ہے جس کے لئے انسان کو اپنا مذہب تک پسِ پشت ڈالتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

جن دعاؤں نے قبول ہونا ہوتا ہے، ان کے لئے خاص مساجد، گرجا گھروں، مندروں کو بھی منتخب کر لیا جاتا ہے کہ فلاں کی، فلاں جگہ کی جانے والی دعا قبول ہو گی۔ اسی لئے کلیسا کو ماننے والا بعض اوقات مسجد، مندر میں دعا کرنے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا۔ اولاد کی نعمت حاصل کرنے کے لئے ایک 22 واں گریڈ کا ہندو افیسر بھی ننگے پاؤں سفر کر کے علی ہجویری رحمۃ اللہ تعالیٰ کے مزار پر حاضری دیتا ہے اور کبھی عقیدہِ توحید کو ماننے والی حوا کی بیٹیاں پورن بھگت کے کنواں میں اشنان کر کے اولاد کی طلب گار ہوتی ہیں۔ وہی اولاد بعد میں والدین کے ساتھ نہ جانے کیا سلوک کرتی ہے، یہ ایک الگ موضوع ہے۔

ڈاکٹر حسن منظر صاحب کے افسانوی مجموعہ جھجک میں سے ایک افسانہ ”یٰسین کا لال“ کل پڑھا۔

حسن منظر

ڈاکٹر صاحب کا یہ خوب صورت افسانہ بھی ایک ایسی ہی کہانی کا احاطہ کرتا ہے کہ یٰسین کی واحد اولاد رمضان نامی چھوٹا بچہ بخار میں کچھ دن مبتلا رہنے کے بعد چلنے پھرنے سے محروم ہو جاتا ہے۔ جس ڈاکٹر، پیر فقیر، مولوی کا یٰسین نے سنا، اسے اپنے گھر لے آیا کہ وہ رمضان کو دیکھے اور اس کے چلنے پھرنے کی کوئی تدبیر کرے۔ کسی نے تعویز گنڈوں سے علاج کی کوشش کی تو کسی نے کلامِ پاک کو واحد شفا کر ذریعہ قرار دیا۔ طریوں کا تیل، تارپین کا تیل، ارنڈی کا تیل۔ جو جو میسر آیا، اسی سے رمضان کے پیروں کی مالش کی گئی مگر سب بے سود۔

کسی نے شیر کی چربی کو پگھلا کر مالش کرنے کا مشورہ دیا تو کسی نے شیرنی کے دودھ کا گھی۔ مولوی ایوب نے علاج بالمثل تجویز کیا کہ رمضان کے پیروں کی مضبوطی کے لئے عقاب کے پنجے، گھٹنوں سے اوپر تک رمضان کو کھلانے ہوں گئے۔ اس کے گوشت کا قیمہ رمضان کو کھلانا ہو گا اور ہڈیوں کو کدو یا سرسوں کے بیج کے ساتھ پیس کر اس کی لپڑی رمضان کی ٹانگوں پر لگانا ہو گی کہ عقاب کے پنجوں سے مضبوط اور کسی پرندے کے پنجے نہیں جو بکری کے بچے تک کو اٹھا لے جاتے ہیں۔ جن مشکلات سے ہو کر یٰسین ایک زخمی عقاب کے گھونسلے تک پہنچا وہ سب ایک طرف کہ واحد اولادِ نرینہ کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے وہ اس سے بھی بڑھ کر بہت کچھ کر سکتا تھا۔

آپ سب باتیں چھوڑیں اور افسانے کا ایک پیراگراف پڑھیں کہ جب یٰسین اپنے رمضان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے مشکلات سے گزر کر زخمی عقاب کے گھونسلے میں پہنچا تو وہاں کیا معاملہ پیش آیا۔

”عقاب کا ایک پنکھ نیچے کو گرا ہوا تھا۔ وہ خوف زدہ تھا۔ دوسرے پنکھ سے اپنے بچوں کو چھپانے کی کوشش کر رہا تھا جو ابھی ابھی یٰسین نے دیکھے تھے۔ یہ عقابنی ہے، اس کے دماغ میں آواز آئی۔ یٰسین وہاں تک پہنچ چکا تھا کہ ایک ہی وار میں عقابنی کے پنجے، اس کے جسم سے جدا کر دے۔ سناٹے میں کمزور آواز آئی: گرر گرر گرر، جیسے عقابنی نہیں، اس کا بچہ مدد کے لئے پکار رہا ہو۔ یٰسین کا جسم پسینے میں ڈوب گیا اور وہ ہاتھ نہ اٹھا سکا۔ “

جب یٰسین واپس لوٹا تو رات ہو چکی تھی۔ یٰسین کی بیوی، یٰسین کے خالی ہاتھ دیکھ کر دیر تک خاموشی سے اپنے بہائے ہوئے آنسو پونچھتی رہی۔

رمضان سکون پا کر کب کا سو چکا تھا۔

حارث بٹ
Latest posts by حارث بٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).