بھارتی فضائی کارروائی۔ مودی کی انتخابی مہم زوروں پر


2019 بھارت میں عام انتخابات کا سال ہے۔ یہ انتخابات اپریل اور مئی میں مرحلہ وار منعقد ہوں گے۔ بھارتی الیکشن کمیشن جلد ہی حتمی تواریخ کا اعلان کر دے گا۔ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے 12 جنوری سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔

بی جے پی 2014 کے انتخابات میں مرکزی اقتدار میں آئی تھی۔ ان انتخابات میں کانگریس کو شکستِ فاش ہوئی تھی۔ قریباً پورے ملک سے کانگریس پارٹی کا صفایا ہو گیا تھا۔ مودی ایک کرشماتی رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ انہوں نے وزیر اعظم کا منصب سنبھالا۔ اس کے بعد بھی مودی کی مقبولیت برقرار رہی۔ ایسا دکھائی دے رہا تھا جیسے کانگریس کو اپنی سیاست کی بقا کے لالے پڑ گئے ہوں۔

2018 سے فضا بدلنا شروع چکی ہوئی ہے۔ گزشتہ برس نومبر اور دسمبر میں بھارت کی پانچ ریاستوں راجھستان، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، تلنگانہ اور میزروم میں علاقائی انتخابات منعقد ہوئے۔ ان انتخابات کے نتائج حیران کن تھے۔ بی جے پی راجھستان میں شکست کھا گئی۔ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اس کے پندرہ سالہ اقتدار کا کانگریس کے ہاتھوں خاتمہ ہوا۔ دوسری دو ریاستوں میں علاقائی جماعتیں آگے رہیں۔ ان نتائج نے بی جے پی کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ مودی کی مقبولیت کا گراف نیچے آتا ہو دکھائی دیا۔

بھارت اب عام انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ’رافیل تنازع‘ نے کانگریس کے مردہ گھوڑے میں جان ڈال دی ہے۔ راہول گاندھی اعتماد کے ساتھ انتخابی مہم میں مصرف ہیں۔ اس مہم میں ان کی بہن پریانکا گاندھی، جو اندرا گاندھی سے مشابہت رکھتی ہیں، بھرپور انداز میں ان کا ساتھ دی رہی ہیں۔ عوام میں پریانکا گاندھی کا اثر قائم ہو رہا ہے۔ کانگریس نے مضبوط علاقائی جماعتوں کے ساتھ اتحاد قائم کیے ہیں۔ ان انتخابات میں کانگریس بے روزگاری، بدعنوانی خصوصاً رافیل طیارے خریدنے میں بڑے پیمانے پر سامنے آنے والی مبینہ بے ضابطگیوں کو انتخابی ہتھیار کے طور پر استعمال کرے گی۔

ان ناساز حالات میں بی جے پی کے پاس کیا راستے ہیں؟

بی جے پی کے پاس آپشنز کی کمی نہیں ہے۔ رام مندر، بابری مسجد تنازعہ، حب الوطنی (دیش بھگتی) ، اور پاکستان دشنمی جیسے عنوانات پر مشتمل نعرے بہت آسانی سے بکتے ہیں۔ وزیراعظم مودی بھی ہندوتوا پر یقین رکھتے ہیں اور یہی ان کی نظریاتی اور سیاسی اساس ہے۔

انتخابات قریب آتے ہی پاک بھارت بارڈر اور لائن آف کنٹرول پے کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ 14 فروری کو مقبوضہ کشمیر کے پلوامہ ضلع میں بھارتی افواج کے ایک کانوائے پر حملے میں پچاس کے قریب فوجی جوان مارے گئے۔ جیش محمد نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ اس واقعے سے بھارتی عوام میں شدید غم و غصہ کی لہر پیدا ہوئی۔ بھارتی ٹی وی چینلز آگ اگلنے لگے۔ پاکستان کو سبق سکھانے کے باتیں زورو شور سے کی جانے لگیں۔ جب الوطنی کا جادو سر چڑھ کے بولنا شروع ہوا۔

گزشتہ روز بھارتی جنگی طیاروں نے رات کے آخری پہر مظفر آباد سیکٹر سے سرحد عبور کرتے ہوئے بالاکوٹ میں کارروائی کی۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ اور پاک فوج کے تعلقاتِ عامہ کے مطابق بھارتی طیارے اپنا بارود چھوڑ کر فرار ہوگئے اور اس سے صرف چند درختوں کو ہی نقصان پہنچا ہے۔ زیادہ سے زیادہ چند مکانات کو نقصان پہنچنے کی بات کی گئی ہے۔ کسی قسم کی جانی نقصان کی اطلاع نہیں۔

دوسری طرف بھارت میں اس واقعے کے بعد ایک طرح سے جشن کا سماں ہے۔ بھارت نے سرکاری بیان میں ’سرحد کے اس پار‘ فضائی حملہ میں جیش محمد کے کیمپ کو تباہ کرکے کم ازکم دو سو افراد کو مارنے کا دعوی کیا ہے۔ بھارتی فضائیہ کو ہر طرف سے دادوتحسین مل رہی ہے۔ سوشل میڈیا پے بھارتی عوام کی خوشی دیدنی ہے۔ مودی کی تعریفوں کے پل باندھے جا رہے ہیں۔ مودی یقیناً اگلے جلسوں میں تقریر کرنے کے لیے پرجوش ہوں گے۔ ان کی پسند کا موضوع ان کے ہاتھ میں ہے اور وہ بھی اتنے بہترین انداز میں!

اس کارروائی کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ پاکستان کس انداز میں جواب دے گا؟ بین الاقوامی اور سفارتی محاذ پر دونوں ممالک اس کارروائی کو کیسے پیش کرتے ہیں؟ ان سوالوں کے جوابات آنے میں وقت لگے گا۔

ایک بات بالکل واضح نظر آرہی ہے کہ اس وقت بی جے پی کی انتخابی مہم عروج پر ہے۔ بھارتی انتخابات میں ’پاکستان کارڈ‘ مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ اور مودی اس کارڈ کو بڑی خوبصورتی سے استعمال کرنے لگے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).