مذاکرات اور امن کی خوشگوار پیش کش


وزیر عمران خان نے پاک فضائیہ کی طرف سے بھارت کے دو طیارے مار گرانے کے تھوڑی دیر بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کو ایک بار پھر پلوامہ سانحہ کی تحقیقات میں تعاون کرنے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے مذاکرات کی پیش کش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا اور ایک خود مختار ملک کے طور پر پاکستان خود اپنی سرزمین کوپیش آنے والے چیلنج کا جواب دینے پر مجبور تھا۔ عمران خان نے واضح کیا کہ ایک بار مسلح تصادم شروع ہوجائے تو پھر نہ میں اور نہ ہی نریندر مودی اس پر کنٹرول کرسکیں گے۔

وزیر اعظم کی تقریر سے پہلے آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر آصف غفور نے لائین آف کنٹرول پر بھارتی طیارے مار گرانے کی تفصیل بتاتے ہوئے ایک پائلٹ کی گرفتاری کی اطلاع دی تھی۔ تاہم فوج کے ترجمان کا بھی یہی مؤقف تھا کہ ’آج کی جانے والی کارروائی کا مقصد تنازعہ کو بڑھانا نہیں ہے بلکہ ہم بھارت کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ وہ ہمارے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرے‘ ۔ وزیر اعظم نے اس سرکاری پالیسی کی تصدیق کرتے ہوئے بھارت کو مذاکرات اور خطے میں امن قائم کرنے کی جو پیشکش کی ہے، وہ عالمی اقوام کی رائے کے مطابق ہے جو اس وقت پاکستان اور بھارت کو اشتعال انگیزی ختم کرکے مل جل کر امن کی راہ ہموار کرنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔ امریکہ، چین، برطانیہ اور یورپین یونین کے علاوہ متعدد دوسرے ملکوں نے بھی برصغیر کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں حکومتوں کو تحمل اور عقل سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے۔

یہ مشورہ اس حوالے سے بھی صائب اور اہم ہے کہ دونوں ملک ایٹمی صلاحیت کے حامل ہیں۔ حالانکہ پاکستان یا بھارت کی طرف سے سرکاری طور پر کبھی جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی بات نہیں کی گئی، اس کے باوجود دونوں ملکوں کی فضائیہ نے جس طرح ایک دوسرے پر حملے کیے ہیں، اس سے اشتعال اور بے یقینی میں اضافہ ہؤا ہے۔ ایسی صورت حال کسی بڑے تنازعہ کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ جیسا کہ وزیر اعظم نے بھی باور کروایا ہے کہ جنگ کی حالت میں لیڈر بھی بے بس ہوجاتے ہیں۔

پھر حالات خود راستہ بناتے ہیں اور اس کے نتیجے میں تباہی و بربادی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ پاکستان اور بھارت میں آبادی اور وسائل کے اعتبار سے بھی عدم توازن موجود ہے۔ دونوں ملک اس کے باوجود بڑی آبادیوں کا پیٹ پالتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے وسائل بہر حال محدود ہیں۔ اس کے باوجود جنگ کی گرما گرمی میں غلطی سے یا کسی گمراہ لمحے میں خطرناک ہتھیاروں کے استعمال کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔

اس وقت دنیا کی اصل تشویش یہی ہے۔ بدنصیبی کی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان اور بھارت نے جوہری صلاحیت تو حاصل کرلی ہے لیکن ان کی حکومتیں اور قیادت، اس تدبر اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے جس کا اس قسم کی خطرناک عسکری صلاحیت کی حامل طاقتوں سے امید و توقع کی جاتی ہے۔ دونوں ملکوں کے سیاست دانوں کے ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ ’ایٹم بم نمائش یا شب برات پر پٹاخے کے طور استعمال کرنے کے لئے نہیں ہیں‘ ۔

سیاسی تقریروں کے ہیجان میں متعدد بار دونوں ملکوں کے لیڈر ایک دوسرے پر ایٹم بم پھینکنے کی احمقانہ دھمکیاں دے چکے ہیں۔ اس جذباتی اور عاقبت نا اندیشانہ سیاسی مزاج کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کی صورت میں خطرہ اور اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ اگرچہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائیریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے گزشتہ روز بھارتی فائیٹرز کی دراندازی کے بعد اس جوہری جنگ کے بارے میں سوال کا معقول اور ذمہ دارانہ جواب دیا تھا۔ ان کا کہنا کہ ’اس قسم کی بات کرنا بھی مناسب نہیں ہے۔ جوہری صلاحیت کا استعمال موضوع بحث نہیں ہے‘ ۔ امید کرنی چاہیے کہ دونوں طرف کی سیاسی اور فوجی قیادت میں ایسا ہی ہوشمندانہ رویہ موجود رہے گا۔

پاکستان کی طرف سے گزشتہ دو روز کے افسوسناک واقعات کے باوجود ہوشمندی، متانت و سنجیدگی اور جنگ سے بچنے کا بار بار ذکر کیا گیا ہے۔ بھارت نے کل لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرنے اور پاک فضائیہ کے مقابلے پر آنے کے بعد واپسی کی جلدی میں اپنے بم بالا کوٹ کے قریب ایک ویران علاقے میں گرا کر فرار ہونے میں عافیت سمجھی تھی۔ تاہم اس کے بعد بھارتی سیاست دانوں اور میڈیا نے جس طرح ساڑھے تین سو افراد کو ہلاک کرنے اور جیش محمد کے تربیتی کیمپ کو کھنڈر بنانے کے دعوے کیے، اس سے عام لوگوں میں ہیجان اور غیر ضروری جنگی جنون پیدا ہؤا۔

ٹیلی ویژن خبروں میں بھارتی شہریوں کو اس ’فتح‘ پر مٹھائیاں بانٹتے اور پاکستان کے خلاف نعرے لگاتے دیکھا جاسکتا تھا۔ دوسری طرف پاکستان میں اگرچہ ایک حلقہ کی طرف سے بدستور ہوشمندی سے کام لینے اور جارحیت کا جواب جنگ سے دینے کی بجائے سفارت کاری اور رابطوں کو موقع دینے کی ضرورت پر زور دیا گیاتھا۔ لیکن پاکستان کے بہت بڑے حلقے کی طرف سے جوابی کارروائی کا مطالبہ بھی کیا جارہا تھا۔ جنگ کی باتیں عام کی گئیں اور امن کی بات کرنے والوں کو ڈرپوک اور ملک دشمن کے خطابات سے نوازا جاتا رہا۔ حالت جنگ میں امن کی بات کرنا بزدلی نہیں، بلکہ بہادری ہوتی ہے۔ عمران خان نے بلاشبہ آج اسی بہادری اور ہوشمندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ جنگ کو روکنے اور امن کو موقع دینے کے بارے میں ان کی باتیں مدبرانہ ہیں اور ان سے کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش موجود نہیں ہے۔

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے آج اگرچہ پاک فضائیہ کی شاندار کارکردگی کا اعلان کیا اور اس کے دستاویزی ثبوت بھی فراہم کیے لیکن انہوں نے بھی عالی ظرفی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، آج کی کارروائی کو پاکستان کی ’کامیابی‘ قرار دینے سے انکار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم نے کوئی بدلہ نہیں لیا اور ہم نے دشمن کو‘ انگیج ’کرتے ہوئے بھی یہ کوشش کی تھی کہ اس میں جانی نقصان نہ ہو۔ ہم اس تنازعہ کو بڑھانے کا ارادہ نہیں رکھتے‘ ۔

بھارتی طیاروں نے جب آج بھی لائین آف کنٹرول عبور کی تو پاک فضائیہ کو جوابی کارروائی کرنا پڑی جو کامیاب ہوئی اور دو مگ۔ 21 طیارے تباہ کرنے کے علاوہ ایک بھارتی پائیلٹ کو گرفتار بھی کرلیا گیا۔ پاکستان کے زیر انتظام علاقے میں موجود بھارتی فائیٹر جیٹ کا ملبہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کا بیانیہ درست ہے۔ اگرچہ بھارتی وزارت خارجہ نے نئی دہلی میں پاکستان کے ناظم الامور کو طلب کرکے ایک احتجاجی مراسلہ دیا ہے اور اس واقعہ کو پاکستان کی ’جارحیت‘ قرار دیا ہے۔

پاکستان اور بھارت غریب آبادیوں کے ممالک ہیں اور اپنے عوام کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے بیرونی امداد، دوسرے ملکوں میں کام کرنے والے اپنے کارکنوں کی ترسیلات اور بیرونی سرمایہ کاری پر انحصار کرتے ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان کو بدستور بجٹ خسارہ کا سامنا ہے اور بھارت کی ایک تہائی آبادی کسمپرسی کی زندگی بسر کرتی ہے جبکہ اس کی چوتھائی آبادی کی فی کس آمدنی ڈیڑھ ڈالر یومیہ سے کم ہے۔ اس کے باوجود بھارت کی موجودہ قیادت نے مذہبی انتہا پسندی اور معاشرتی تفریق کے علاوہ پاکستان دشمنی کو سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے بھارت کی جمہوری اور سیکولر اساس کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

پلوامہ حملہ کے بعد پیدا کی جانے والی ہیجان خیز صورت حال بھی دراصل نریندر مودی کے سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کا ذریعہ ہے۔ مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی یہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ انتخابات میں کامیابی کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ قوم پرستی اور ریٹنگ کے جوش میں بھارت کا بے لگام میڈیا اس مشن میں ان کا سب سے مؤثر ہتھیار بناہے۔ دو ہفتے قبل پلوامہ سانحہ نے مودی او رمیڈیا کو پاکستان کے خلاف بدکلامی کا نادر موقع فراہم کردیا۔

ماضی میں پاکستانی حکومت سے غلطیاں سرزد ہوئی ہوں گی لیکن اس کا بدلہ بھارت بھی بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی سرپرستی اور افغانستان میں مقیم پاکستان مخالف عناصر کی امداد کرکے چکاتا رہا ہے۔ بلوچستان سے کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت جس دراندازی کا الزام پاکستان پر عائد کرتا ہے، وہ خود بھی اس کا ارتکاب کرتا ہے۔ مذاکرات سے انکار کوئی اصولی معاملہ نہیں ہے بلکہ بھارتی قیادت کی اس بچگانہ خواہش کا پرتو ہے کہ پاکستان کو مسلسل دباؤ میں رکھا جائے تاکہ وہ معاشی بدحالی کا شکار رہے اور تباہی کے کنارے پہنچ جائے۔ اس خطے میں رونما ہونے والے حالات، چین کے علاوہ سعودی عرب کی سرمایہ کاری کے منصوبے اور بڑھتی ہوئی آبادیوں کی ضروریات کی روشنی میں بھارتی قیادت کی حکمت عملی ناقص ہے جس کا خمیازہ اسے خود بدحالی اور تباہی کی صورت میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

جنگ نہ تو کسی مسئلہ کا حل ہے اور نہ ہی پاکستان یا بھارت اس کے اخراجات برداشت کرنے کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ امریکہ جیسی اقتصادی اور عسکری سپر پاور بھی بیرون ملک جنگوں سے تنگ آچکی ہے۔ اسی لئے ’سب سے پہلے امریکہ‘ کا نعرہ لگانے والا ٹرمپ جیسا آؤٹ سائیڈر ملک کا صدر بننے میں کامیاب ہوگیا۔ خوش قسمتی سے پاکستانی قیادت ہوشمندی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ بھارت کو بھی اب عمران خان کی تقریر کے اخلاص اور مقصد پر غور کرنا چاہیے۔ اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے گئے تو کامیاب تو کوئی نہیں ہوگا لیکن برصغیر کے عوام کے لئے مصائب و ابتلا کا دورانیہ طویل اور سنگین ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali