ہم اور ہمارا ایٹم بم


اور پھر بھارت باز نہ آیا یہ بالکل ایسی ہی حرکت ہے جیسے آپ کا ناراض ہمسایہ آپ کے گھر کے سامنے کیلے کے چھلکے پھینک دے مطلب اب آپ کی مرضی ہے چاہے تو اگنور کر دیں دل چاہے تو لڑائی کرلیں۔ دراصل بہت زیادہ واویلا مچانے کے باوجود مودی صاحب کی وہ گیم بنی نہیں جو وہ بنانا چاہ رہے تھے۔ جبکہ پاکستان کا بیانیہ کام کر گیا ہے کہ یہ بھارت کا الیکشن سٹنٹ ہے۔ یہی مودی جی کا المیہ بن گیا ہر چیز ویسے ہی دہرائی جا رہی تھی جیسے بھارت کے ہر الیکشن سے پہلے ہوتا ہے۔ بھارت نے ضروری ضروری واویلا مچایا پاکستان نے ضروری ضروری بیانات دیے اور بات ختم۔

مگر مسئلہ یہ ہوا کہ الیکشن سے پہلے ہی مودی صاحب کا بیانیہ ہوا ہو گیا الیکشن ابھی تھوڑا دور ہے اگر تب تک ماحول گرم رکھنا ہے تو مودی صاحب کوایسی کافی ساری حرکتیں کرنا پڑیں گی۔ بعید نہیں ہے کہ ہم آنے والے دنوں میں کچھ اور اسی طرح کی حرکتیں دیکھیں۔ مگر گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ وہ حرکت ہے جس میں برکت نہیں ہے۔

شاید یہ ہمارے سے بہتر کوئی نہ سمجھ سکے کہ نا اہل قیادت ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ دنیا میں ایٹم بم کی ایجاد سے پہلے بھی قومیں تباہ ہو جایا کرتی تھی اور ایٹم بم کی ایجاد کے بعد بھی قومیں پرامن زندگی گزار رہی ہیں۔ لہذا ایٹم بم کے دنیا میں ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ ہمیں یہ بات سمجھ جانا چاہیے کہ قیادت ہوتی ہے جو قوموں کو جنگوں میں جھونک دیتی ہے اور قیادت ہوتی ہے جو قوموں کو جنگوں سے نکال لیتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم پچھلے 70 سال سے ایک ہی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ ایک نسل قربان ہوئی اوردو ملک وجود میں آئے۔ یہ نفرت اگلی نسل تک پہنچی تو دونوں نے ایٹم بم بنا لیے۔ یہی دیوانگی اگلی نسل کو پہنچی ہے تو وہ ہر بات پر ایٹم بم نکال کر بیٹھ جاتی ہے۔

محبت سے دل جیتے جاتے ہیں جبکہ نفرت سے الیکشن جیتے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے دونوں ملکوں میں ایسی سوچ برسراقتدار رہیں جو صرف اگلا الیکشن جیتنا چاہتی تھی۔ اس کا نتیجہ ہمارے سامنے دونوں ملکوں کے تعلقات آج بھی ستر سال پہلے والی جگہ پر کھڑے ہیں۔ آج حالت یہ ہے کہ ہر جانب نفرت اور تباہی کا بازار گرم ہے ہم اپنے اپنے ایٹم بم پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

ہم ستر سال سے لڑ رہے ہیں ستر سال مزید لڑ لیں گے۔ مگر ہم 700 سال نہیں لڑ سکتے کیونکہ جیسے ہی کوئی سمجھدار قیادت دونوں طرف آ جائے گی تو یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گا۔ موجودہ حالات میں ہمیں اپنے اپنے ایٹم بم اپنے پاس رکھنا چاہیے کیونکہ مودی صاحب کے ہوتے ہوئے ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ فی الحال ہمیں چاہیے کہ انتظار کریں اور بھارت میں الیکشن ہونے دیں۔ امید ہے کہ وہاں کے عوام کوئی سنجیدہ فیصلہ کریں۔ کیونکہ اس وقت خطے کی ساری گیم بھارتی عوام کے ہاتھوں میں ہے۔ اگر تومودی صاحب ہار گئے تو سمجھیے کہ ہم جیت گئے اگر مودی صاحب جیت گئے تو سمجھیں کہ ہمارا ایٹم بم جیت گیا۔ کیونکہ نا اہل قیادت ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔

شان احمد
Latest posts by شان احمد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).