جنگ


کیا انڈیا اور پاکستان کے باسی ان حالات کو جانتے ہیں جو جنگ کی بدولت پیدا ہوتے ہیں؟

جنگ کی باتیں سوشل میڈیا پر ہی جچتی ہیں۔ کبھی تصور کیجیے گا کہ آپ کا بڑا بھائی چارپائی پر لیٹا ہوا ہے، ایک ٹانگ سے محروم ہے۔ کبھی تصور کیجیے، آپ کی عزیز ترین ہستی، آپ کا والد بارود کے دھویں سے اپنی آنکھیں کھو چکا ہے، کبھی تصور کیجیے گا کہ آپ کا چھوٹا بھائی، آپ کا بیٹا، بھتیجا یا بھانجا خون میں لت پت آپ کی گود میں سسک رہا ہے، کبھی تصور کیجیے گا کہ آپ خود اپنے جسم سے نکلتے خون کے فواروں کو دیکھ کر بے ہوش ہو چکے ہیں۔

جنگ جگتوں سے نہیں، میرے دوست، میرے بھائی! ، اس دور میں بارود اور گولیوں سے لڑی جاتی ہے۔ ایک سیکنڈ کے تیسویں حصے میں بارہ گولیاں فائر کرنے والے چھوٹے سے نائن ایم ایم پستول کی تصویریں اور یوٹیوب پر ریویوز دیکھ کر خود کو بہادر سمجھنا جنگ ناآشنا ماحول میں تو درست ہے، مگر جب سامنے والے کے پاس اے کے سنتالیس ہو اور اس کے سامنے وہی ویڈیوز والا نائن ایم ایم بھی لے کر کھڑے ہو جایا جائے تو دونوں میں سے کسی ایک کے جسم پر پڑنے والے زخم کی شدت کے احساس سے ہی چہرے زرد ہو جانے اور دونوں ہتھیاروں سے نکلنے والی جان کش گولیوں کا دو انسانی جسموں کو چیر ڈالنے کا تجربہ کسی کے لیے جگت کے معانی رکھتا ہو گا مگر ہوش مند اور عقلمند طبقہ، جس نے تاریخ کا مطالعہ بھی کر رکھا ہے اور مشاہدہ بھی، کبھی بھی اس بھیانک منظر نامے میں سے گیدڑ بھبکیوں اور دھمکیوں کو پسند نہیں کر سکتا۔

دراصل یہ وقت کسی جنگ کے لیے موزوں نہیں۔ بلکہ کوئی بھی وقت کسی جنگ کے لیے موزوں نہیں مگر اس وقت پر غیر موزوں ہونے کی خصوصیت اس لیے ہے کہ مسلمان قوم کی حیثیت سے ہم مکمل ان فٹ ہیں۔ ہم میدان کے قابل نہیں ہیں۔ میں وجوہات بتاتا ہوں۔ امریکا میں عام شہری کو قانونی اسلحہ حاصل کرنے میں اتنی آسانی ہے جتنی ہماری قوم کو ایک موٹرسائیکل یا کار حاصل کرنے میں۔ جبکہ انہی امریکیوں کے لیے غیر قانونی اسلحہ حاصل کرنا بالکل ایسے ہے، جیسے ہماری قوم کے لیے بازار سے چینی، گھی یا گوشت حآصل کرنا۔

2017 کے ایک سروے میں شمالی امریکا کی آبادی کی مناسبت سے چھوٹے آتشی ہتھیاروں کی تعداد کا اندازہ لگایا گیا، جس کے مطابق ہر ایک سو لوگوں کے پاس 120 چھوٹے آتشی آلات یعنی پستول یا شاٹ گن وغیرہ موجود ہیں۔ امریکا ایک ترقی یافتہ ملک ہے، جبکہ ہم ترقی پذیر بھی پوری طرح نہیں ہوئے۔ ہم دن رات یہ راگ تو الاپ لیتے ہیں کہ امریکا میں جنسی آزادی ہے، عورتیں مردوں کے برابر کام کرتی ہیں، بلکہ مردوں کے شانہ بشانہ، وہاں کے قوانین، وہاں کی تعمیرات، وہاں کے رہن سہن، وہاں کی سڑکیں، حتیٰ کہ وہاں کے گٹر بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ بنے ہوئے ہیں تو ہم اسلحہ کے مقابلے میں پیچھے کیوں ہیں؟

میرا پوائنٹ یہ ہے کہ وہ سامان حرب جو اپنی حفاظت کے لیے پاس رکھنا لازمی ہے، ہماری قوم پر حرام کر دیا گیا ہے، کبھی ایک بتیس بور کے پستول کا لائسنس بنوا کر دیکھیں، آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی کہ اسلحہ حاصل کرنا کتنا مشکل ہے۔ اس قوم کو عملی طور پر جنگ کے ماحول سے ایک صدی دور کر دیا گیا ہے، اب اس قوم کو صرف بیانات اور بیانیوں کی جنگوں کا ادراک باقی رہ گیا ہے اور بس۔ اب انہیں شیخ رشید کے اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے بیان ہی لگا کھاتے ہیں، کسی عملی شخص کی زمینی حقائق پر مبنی بات نہ انہوں نے کبھی سنی نہ انہیں ریاست نے سننے دی۔

باتوں کی جنگوں کی بجائے عملی جنگ کی بات کرنے والوں کو ٹارچر سیلوں میں ڈال ڈال کر ظلم کی وہ داستانیں رقم کی گئیں کہ الامان۔ ایسے حالات سے گزر گزار کر جو قوم باقی بچی ہے، وہ بچّی ہے۔ نازک اندام، ہنستی کھلکھلاتی، بہری قوم، جو ریل کی پٹڑی پر چلتی جا رہی ہے، اس کے پیچھے سے ریل چیختی چنگھاڑی ہارن دیتی ہوئی آ رہی ہے اور وہ اپنی اٹھکیلیوں میں مگن خراماں خراماں چلے جا رہی ہے۔

ہم بحیثیتِ قوم جنگ کے لیے بالکل تیار نہیں ہیں۔ نہ ہمارے پاس اسلحہ ہے نہ تربیت، نہ جنگی ماحول سے واقفیت۔ اور سب سے بڑھ کر مقصدیت کا نہ ہونا۔ میں بحیثیت اپنی قوم کے ایک رکن کے بڑوں چھوٹوں سمیت سب سے سوال کرتا ہوں کہ اگر انہیں انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ کا مقصد معلوم ہے تو بتائیں۔ اگر میرے یہ بزرگ جنگ کا مقصد دو قومی نظریہ بتائیں تو ایک عدد مسکراہٹ ان کے لیے۔ دو قومی نظریہ قائدِ اعظم کے ساتھ ہی زیارت میں فوت ہو چکا اور اس وقت مزارِ قائد میں محمد علی جناح کے ساتھ دفن ہے۔

دوقومی نظریہ بہت دور ہے، پاکستانی آبادی کیا ایک مکمل قوم کہلائے جانے کی اہل ہے؟ نہیں۔ بالکل نہیں۔ اگر جنگ کا مقصد کشمیر کی آزادی بتاتے ہیں تو افسوس! یہ مکمل بناوٹی، سطحی اور افسانوی مقصد ہے۔ اپنے دو قومی نظرے کے احیا و اطلاق میں بھی تھکاوٹ محسوس کرنے والا ملک کب کشمیر کی آزادی کی جہد کر سکے گا۔ ؟ اگر آپ مقصد معاشیات رکھیں تو اس جنگ سے قبل بھی انڈیا اور پاکستان دونوں ممالک کی معیشتیں اپنی اپنی ڈگر پر ترقی پذیر ہیں۔ معیشت اس جنگ کی وجہ بالکل نہیں ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ جنگ بے مقصد ہے۔ اگر آپ یہ کہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور ہندوؤں سے جنگ کرنے لگے ہیں تو بھی یہ بات قابلِ قبول نہیں۔ انڈیا کے تو مسلمان بھی پاکستان کے مسلمانوں سے جنگ کرنے کے خواہاں ہیں، کبھی پوچھ کر دیکھ لیجیے گا۔

یہاں ایک جملہ دے دیا جاتا ہے کہ جنگ جذبوں سے لڑی جاتی ہے اسلحے سے نہیں اور پھر مزید حوالے دے دیے جاتے ہیں کہ ہمارے پرکھوں نے دریاؤں میں گھوڑے دوڑائے ہیں۔ اللہ کے نیک بندو! انہوں نے دریاؤں میں گھوڑے بعد میں دوڑائے تھے، پہلے انہوں نے خشکی پر گھوڑے دوڑانے سیکھے تھے، کیا کوئی جانتا ہے کہ عقبہ بن نافع نے کتنی عمر میں گھڑ سواری سیکھی تھی؟ آپ جذبوں کی بات کرتے ہیں کیا آپ میں عمدہ جذبے موجود ہیں؟ کیا آپ اپنے ”جذبوں“ کو اہنی پھرتی میں، اپنی جنگی صلاحیت میں ڈھال سکتے ہیں؟ کیا آج، اس دور میں آپ میں سے کوئی اپنے آپ کو اس لیول کا ڈرائیور سمجھتا ہے کہ نوے کی رفتار پر کھڈوں میں گاڑی دوڑاتے ہوئے آنے والی گولیوں اور راکٹوں سے بچے بھی اور دریں اثناء دشمن پر تاک کر بڑی گن سے نشانہ باندھے بھی؟ اگر نہیں تو آپ کو یہ حق حاصل نہیں کہ اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی بات کریں۔

میرے محترم رہنماؤ! چونکہ آپ حرب و ضرب سے آگاہ ہیں۔ سو اب کی بار آپ خود میدان میں اتریے گا، لڑیے گا۔ ہماری قوم لڑنے کے ہنر سے نا آشنا ہے۔ ہم چھوٹے لوگ آپ بڑے بڑوں کی بڑی بڑی تلواروں کے سائے میں کچھ دن کا آرام چاہتے ہیں۔ لڑیے کہ آپ کے ووٹ پورے ہوں۔ اور ہو سکے تو شہید ہو جائیے گا تاکہ ہم فخر سے آپ کے بھی زندہ ہونے کے نعرے فضا میں بلند کر سکیں

زندہ ہے فلانا زندہ ہے!

علی عمر عمیر
Latest posts by علی عمر عمیر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).