منٹو؛ جیتے رہو میاں سدا۔۔۔


\"muhammad(حفیظ خان صاحب سے معذرت کے ساتھ)

حفیظ خان صاحب کے لکھے ہوئے مضمون کو پڑھا بلکہ اس مضمون نے مجھے پکڑ لیا کہ \”ادھر آئو مجھے پڑھے بغیر نہ جانا\”۔ تحریری خوبیوں سے بھرپور اس مضمون کی اہمیت اپنی جگہ حاصل کر چکی ہے۔ اس پہ قصیدہ لکھنے کی ضرورت اس مضموں کی شان کے خلاف ہے۔ میں اس کے سحر میں مبتلا ہو کر چند گزارشات کی ہمت کر رہا ہوں۔

منٹو کے مرنے کے بعد زندہ ہونے کی وجوہات انہوں نے کمال فکر اور تجزیاتی ہنر مندی سے بیان کی ہیں۔ اس حقیقت کو الفاظ دیئے جسے منٹو دنیاوی زبان ملنے پہ خود سنایا کرتا۔ اس پہ لعن طعن اس دور میں اگر ہوتا ہے تو مانیئے کہ منٹو کے سچ سے \”ڈرنے\” والوں کا ٹولہ موجود ہے۔ انہیں اس کی فکر شاید نہ ہو کہ \”خدا\” دیکھ رہا ہے، مگر وہ منٹو کی\” تحریری آنکھوں\” سے ڈرتے ہیں۔ یہ تالے توڑنے والے اور رہزن ہین یہ نیلی بتی اور سائرن سے زیادہ :صبح کی ازان سے خوف کھاتے ہیں۔ ان کے کرتوت انہیں جو ملامت کرتے ہیں یہ وہی ملامت اپنی ذات سے باہر تقسیم کر دیتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ منٹو اپنے سماجی افکار کی صدائیں لگاتا رخصت ہوا مگر صدا کو ایک نہیں کئی زبانیں حاصل ہو گئیں۔ فرق یہ ہے کہ ابھی وہ منٹو کی اذیتوں کو بھول نہیں پائے، وہ سماجی وار جو بدلے میں اس کے نحیف وجود نے سہے انہوں نے اس کی روح تک گھائل کر دی۔ بس زرا اس وحشت سے نجات پانے کی دیر ہے۔ دیکھتے جائیں کہ قلم کیسے حق گوئی کی تاریخ رقم کرتا ہے۔

چولیاں اگر کوئی سی دے تو اس کا بھلا شاید اس سے بدن ڈھانپنے میں کوئی آسانی ہو، اگر کوئی سماج پہ برداشت کا دم پھونک دے کہ وہ منٹو\"manto\" کے افسانوں پہ سیخ پا ہو کے مشرقی اقدار سے کوئی حوالے نہ لائیں تو انکی عنایت، اگر کسی کی آنکھیں تقسیم برصغیر کو منٹو کی آنکھوں سے دیکھیں تو اسے \”ہم سب\” کا سلام۔ مگر منٹو کو ہر زمانے میں زندہ رہنے کی دعا دیجیئے، اگر وہ کبھی لاغر بدن ہو تو اسے سہارا دینا چاہیئے کینونکہ منٹو کی ضرورت ہر دور میں رہے گی۔ سماجی تضادات کی فضا بنی رہے گی۔ کچھ نہ کچھ چھپانے کی حرکتیں ہوتی رہیں گی ۔ منٹو کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اسکی بے باکی کو محفوط کرنے کی ہمت کرنی چاہیئے۔ منٹو کی موجودگی سے لوگ شاید خدا سے ڈر جائیں کیونکہ اب تک صرف خدا کا نام لیا جاتا رہا اور جن کے ذمہ تھا کہ وہ خدائی کا مقصد بیان کرتے وہ شاید خود بھی منٹو سے ڈرتے رہے۔ فحش نگاری سے نفرت کرنے والے فحش کاری میں کافی لچک دار رویئے رکھتے ہیں۔ ایک ایسے سماج میں جہاں غربت، پسماندگی اور تعصب نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں جہاں خوابوں اور ارمانوں کی دنیا کا در کھولنے پہ دانستہ اور منصوبہ بند پابندی ہو وہاں \”فحاشی\” اور \”ُپارسائی\” کی تعریف کیا ہو گی۔ التجا ہے کہ منٹو کی حفاظت کی جائے وہ جہاں نظر آئے اس سے نظریں نہ چرائیے۔ منتو کو \”جیتے رہنے\” کی دعا دیجئے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments