بھارتی حساس حلقوں کے کاروباری معاملات


میں نے اپنے پیٹ کو ہزاروں دلیلیں دیں لیکن یہ نہ مانا، تنگ آکر اس پر ہاتھ پھیرا تو پتہ چلا کہ میرے پیٹ کے تو کان ہی نہیں، یہ بے چارہ کیسے سنتا۔ میری بے بسی بڑھتی گئی، مجھے لگا یہ امن اور جنگوں کا کاروبار بھی سب کا سب پاپی پیٹ کا گورکھ دھندہ ہے جس کی کامیابی کا راز لمبی لمبی بے لگام زبانوں اور بہرے کانوں پر منحصر ہے۔ اب ایسے میں جب ہر طرف ازلی دشمن کو تباہ کرنے کی ایک جیسی ہا ہا کار مچی ہے، یہ منطق کون سنے کہ امن کی فیکٹریوں میں اسلحہ بنانا اور جنگ کی مارکیٹ میں فروخت کرنا دنیا کا سب سے بڑا منفعت بخش کاروبار ہے۔ بے بسی در بے بسی یہ بھی ہے کہ بپتا سننے والا کوئی نہیں۔ لگتا ہے جیسے ستر برس سے ڈیڑھ ارب انسان ایسی کشتی میں سوار ہیں جو تیرتی ہے، نہ ڈوبتی ہے اور جس کا کوئی ملاح نہیں۔ اس پر بظاہر کوئی بوجھ نہیں پھر بھی ڈھیروں بوجھ لدا ہے اور کنارہ دکھائی نہیں دیتا۔

ادھوری ذات، ادھورے راستے، ادھورے سفر اور ادھورے فیصلے، سب کچھ ادھورا ہے لیکن ایک چیز مکمل ہے اور وہ ہے جھوٹ۔ جس کا تماشا ہر جا لگا ہے اور زندگی تالیاں بجاتی ہے۔ پرنم آنکھوں اور بوجھل پلکوں کے ساتھ بے بسی روز مسکراتی ہے اور دل قہقہے مار کر ہنستا ہے۔ اس بے بسی کی دنیا میں سکون تو ملتا ہے لیکن سانس رکنے کے بعد۔ میرے سچ کا دم بھی گھٹ رہا ہے۔ انسان دونوں معاملات میں بے بس ہے، دکھ سے بھاگ نہیں سکتا اور سکھ خرید نہیں سکتا۔ اور یہ بے بسی اس وقت تماشا بن جاتی ہے جب خواب حقیقت کے سامنے پاش پاش ہوجاتے ہیں۔

اور حقیقت یہ ہے کہ تمام تر جنگی جنون کے باوجود پاک بھارت باقاعدہ جنگ کا فوری امکان نہیں، اس کے باوجود کہ بظاہر طبل جنگ بج چکا۔ ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے جھوٹے دعوے، کھوکھلے نعرے اور اپنی اپنی فتوحات کے شادیانے بجائے جارہے ہیں۔ ایسے میں یہ رپورٹ چشم کشا ہے کہ پلوامہ میں ہوئے دہشت گردانہ حملے میں 40 سے زیادہ بھارتی جوانوں کی ہلاکت کے بعد ہندوستان نے پاکستان سے پہلے ”موسٹ فیورڈ نیشن“ کا درجہ چھینا پھر 48 گھنٹے کے اندر پلوامہ کے گنہگاروں کو ڈھونڈھ نکالا لیکن اکھنڈ بھارت میں سیکورٹی کی اتنی بڑی غفلت سامنے آنے کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی۔

نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوبھال پر بھی انگلیاں اٹھنی شروع ہو گئیں۔ وجہ ہے اجیت ڈوبھال کے بیٹے شوریہ ڈوبھال، الزام ہے کہ ان کے سعودی پرنس مشال عبدالعزیز آل سعود اور ایک پاکستانی شخص سید علی عباس کے ساتھ کاروباری رشتہ ہے۔ دراصل شوریہ ڈوبھال دبئی میں جیمنی کارپوریٹ فنانس لمیٹڈ کے نام سے ایک کمپنی چلاتے ہیں، جس میں 4 ڈائریکٹرز ہیں، ان میں سے ایک ہے سید علی عباس اور دوسرے ہیں سعودی پرنس مشال عبدالعزیز آل سعود۔

وہیں صنعتکارگوتم اڈانی کے بھی پاکستان سے کاروباری رشتے ہیں۔ اڈانی پاور کام کے ساتھ مل کر پاکستان کو بجلی سپلائی کرتے ہیں۔ شوریہ ڈوبھال اپنی سیاسی اننگز کی شروعات کرتے ہوئے حال ہی میں بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں، گوتم اڈانی کو وزیر اعظم نریندر مودی کا سب سے قریبی سمجھا جاتا ہے، ایسے میں سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ جب ملک کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کے بیٹے اوروزیر اعظم مودی کے قریبی لوگوں کے ہی دشمن ملک یعنی پاکستان کے ساتھ کاروباری رشتے ہیں تو کیاحکومت پاکستان کو منہ توڑ جواب دے گی؟

ان بدلے ہوئے حالات میں سعودی عرب کے ولی عہد پرنس محمد بن سلمان بن سعود کا پاکستان اور پھر ہندوستان کا دورہ بھی سوالوں کے گھیرے میں ہے جو پلوامہ میں بھارتی سیکیورٹی فورسز پر حملے کے فوراً بعد ہوا، لیکن اس کے باوجود سعودی پرنس پاکستان کی ڈوبتی اقتصادیات کو سہارا دیتے بھی نظر آئے اور اربوں ڈالر کے کئی معاہدوں پر مہرلگی۔ سعودی کراؤن پرنس پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جا رہے ہیں، ایسے میں شوریہ ڈوبھال کے سعودی پرنس مشال عبدالعزیز آل سعود کے ساتھ تعلقات پر بھی سوال کھڑے ہوگئے ہیں۔

سوال کھڑے ہوتے ہیں کیونکہ صحافی جمال خاشقچی کا قتل سعودی پرنس کے حکم پر ہوا تھا، سی آئی اے نے اپنی رپورٹ میں اس بات کا ذکر بھی کیا تھا۔ اکتوبر 2018 میں ترکی میں خاشقچی کے قتل کے بعد محمد بن سلمان پر دہشت گرد سرگرمیوں کو فروغ دینے کا الزام لگا تھا، جس کی وجہ سے کئی مشہور شخصیات نے ریاض میں ہوئی انویسٹمنٹ سمٹ میں حصہ لینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ وہیں دوسری طرف الزام ہے کہ جس ملک کے قومی سلامتی کے مشیر کا بیٹا ملک کی سلامتی کو ایک طرف رکھ کر دشمن ملک کے شخص کے ساتھ کاروباری رشتوں میں بندھا، دن رات منافع کمانے کے بارے میں سوچتا ہو، تو ایسے میں ملک کی حفاظت میں نقب لگانا دشمن کے لئے مشکل نہیں۔ سوشل میڈیا سے لے کر سڑکوں پر اترے لوگ بھی پاکستان سے سارے رشتے ختم کیے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں ایسے میں اجیت ڈوبھال کے بیٹے سے منسلک انکشاف حیران کن ہے۔

یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب اجیت ڈوبھال یا پھر ان کے خاندان کے کسی شخص پر انگلی اٹھی ہو۔ اس سے قبل بھی اجیت ڈوبھال کے دیگر بیٹے وویک ڈوبھال کو لے کر بھی چونکادینے والے انکشافات ہوئے تھے، جہاں اجیت ڈوبھال ٹیکس فری اور غیر ملکی کمپنیوں پر سختی سے روک لگانے کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے برعکس ان کے بیٹے وویک ڈوبھال کیمین آئی لینڈ میں ہیج فنڈ چلاتے ہیں، اس میں حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ انہوں نے کیمین آئی لینڈ میں اس ہیج فنڈ 8 نومبر 2016 کو ملک میں وزیر اعظم نریندر مودی کے نوٹ بندی کے اعلان کے محض 13 دن بعد رجسٹر کیا تھا۔ وویک کا یہ ہیج فنڈ ان کے بھائی شوریہ ڈوبھال کے بزنس سے منسلک ہے، جو بی جے پی کے لیڈر ہیں اور مودی حکومت کے قریبی مانے جانے والے تھنک ٹینک انڈیا فاؤنڈیشن کے سربراہ ہیں۔

وویک ڈوبھال چارٹرڈ فنانشل اینالسٹ ہیں۔ انہیں برطانیہ کی شہریت حاصل ہیاور وہ سنگاپور میں رہتے ہیں۔ وویک جی این وائی ایشیا فنڈ نام کی ہیج فنڈ کے ڈائریکٹر ہیں۔ 2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈان ڈبلیو۔ ای بینکس اور محمد الطاف مسلم ویتل بھی اس کے ڈائریکٹر ہیں۔ ای بینکس کا نام پیراڈائس پیپرس میں بھی آیا تھا، وہ کیمین آئی لینڈ میں رجسٹرڈ دو کمپنیوں کے ڈائریکٹر ہیں۔ ای بینکس پہلے کیمین حکومت کے ساتھ کام کیا کرتے تھے اور اس کے وزیر خزانہ اور کئی وزراء کو مشورہ دیتے تھے۔

محمد الطاف لولو گروپ انٹرنیشنل کے علاقائی ڈائریکٹر ہیں، یہ کمپنی مغربی ایشیاء میں تیزی کے ساتھ توسیع کر رہی ہائی پرمارکیٹ چین (market chain) ہے۔ جی این وائی ایشیاء فنڈ کے قانونی ایڈریس کے مطابق، یہ ورکس کارپوریٹ لمیٹڈ سے متعلقہ کمپنی ہے جس کا نام پاناما پیپرس میں آیا تھا۔ انکشاف ہوا ہے کہ شوریہ کے ہندوستانی کاروبار سے متعلق بہت سے ملازم جے این وائی ایشیاء اور اس کی کمپنیوں کے ساتھ قریب سے جڑے ہیں۔ دونوں بھائیوں کے کاروبار کے تار سعودی عرب کے حکمران خاندان سعود گھرانے سے بھی ملتے ہیں۔

اسی طرح کے انکشافات پاکستانی الیکشن سے پہلے ”مودی کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے“ کے نعرے تلے اس وقت پابند سلاسل اور اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف، اب برسر اقتدار حکمران جماعت اور اس کے سیاسی کزن طاہرالقادری نے شریف خاندان کی شوگر ملوں میں بھارتی ملازمین اور ان میں بجلی بنانے کے یونٹس کی موجودگی کے الزامات لگائے۔ جندال نامی ایک بھارتی شخصیت کو پاکستانی حکمرانوں کا کاروباری پارٹنر ثابت کیا گیا، مودی کی جاتی عمرہ آمد کو ذاتی تعلقات قرار دیا گیا اور اب وہی مودی پاکستان پر حملہ آور ہے۔ جبکہ موجودہ حکومت کے بہت سے غیر ملکی دوستوں کے ساتھ کاروباری شراکت داریاں خبروں کی زینت ہیں بلکہ بعض تو حکومت کے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ وزیر، مشیر بھی مقرر ہیں۔

اب اس ہمہ جہت اور عالمگیر مشترکہ کاروباری مفادات کے ہوتے کون کمبخت ایٹمی جنگ میں اپنے اثاثے تباہ کرے گا۔ لیکن جھوٹ کا کاروبار سب سے بڑا کاروبار ہے جس کی سب سے بڑی منڈی میڈیا ہے۔ جسے شک ہے وہ غیر جانبداری کے ساتھ نائن الیون سے پلوامہ تک تمام واقعات کا پوسٹ مارٹم کرلے۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ پاپی پیٹ کے کان نہیں ہوتے اور سچ کی آنکھوں میں ہمیشہ سلائیاں ہی پھرتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).