ہم نے جنگ دیکھنی ہے


سچ تو یہ ہے کہ جنگ کے میدان میں کچھ لوگ قربانی دیتے ہیں اور کچھ نہیں۔ لیکن، پھل انہیں ملتا ہے، جنہوں نے کوئی قربانی نہیں دی ہوتی۔

ہم 1857 ءکی جنگ آزادی کو ہندوستان کی عظیم جنگ کہتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے، یہ جنگ دہلی سے 75 کلومیٹر کے فاصلے پر میرٹھ میں شروع ہوئی اور دہلی پہنچ کر ختم ہو گئی۔

یہ پوری جنگ دہلی کے مضافات میں لڑی گئی تھی اور پنجاب، سندھ، ممبئی، کولکتہ اور ڈھاکہ کے لوگوں کو جنگ کی خبر اس وقت ہوئی جب ملبہ تک سمیٹا جا چکا تھا اور بہادر شاہ ظفر رنگون میں ”کہ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں“ لکھ رہا تھا۔

ہم اگر 1965 ءاور 1971 ءکی جنگوں کا تجزیہ بھی کریں تو یہ جنگیں ہمیں جنگیں کم اور جھڑپیں زیادہ محسوس ہوں گی، 1965 ءکی جنگ چھ ستمبر کو شروع ہوئی اور 23 ستمبر کو ختم ہو گئی، پاکستان اور بھارت 17 دن کی اس جنگ کو جنگ کہتے ہیں یہ دونوں ملک ہر سال اس جنگ کی سالگرہ مناتے ہیں 65 کی جنگ میں چار ہزار پاکستانی شہید اور تین ہزار بھارتی مارے گئے تھے یہ جنگ بھی صرف کشمیر، پنجاب اور راجھستان کے بارڈر تک محدود رہی تھی۔

ہندوستان اور پاکستان کے دور دراز علاقوں کے عوام کو صرف ریڈیو پر جنگ کی اطلاع ملی جبکہ 1971 ءکی جنگ تین دسمبر کو شروع ہوئی اور 16 دسمبر کو ختم ہو گئی۔

اس جنگ میں 9 ہزار پاکستانی شہید ہوئے اور 26 ہزار بھارتی اور بنگالی مارے گئے۔ آپ کسی دن ٹھنڈے دل کے ساتھ 13 اور 17 دنوں کی ان جنگوں کو یورپ کی چار اور چھ سالہ لمبی جنگوں اور ان تین ہزار، چار ہزار، 9 ہزار اور 26 ہزار لاشوں کو یورپ کی ساڑھے چار کروڑ اور چھ کروڑ لاشوں کے سامنے رکھ کر دیکھیں آپ لاہور اور ڈھاکہ پر حملے کو دیکھیں، آپ 1965 ءکے پٹھان کوٹ اور چونڈا کے حملوں کو دیکھیں اور ہیروشیما، ناگا ساکی، پرل ہاربر، نارمنڈی، ایمسٹرڈیم، برسلز، پیرس، لندن، وارسا، برلن اور ماسکو پر ہونے والے جنگی حملوں کا جائزہ لیں پھر افغانستان، عراق، شام، فلسطین، یمن، ویتنام سے گزرنے کے بعد دونوں عالمی جنگوں کا احوال پڑھ لیں اندازہ ہوجائے گا کہ وہ بچ جانے والے انسان اور ان کی نسلین کن حالات میں سے گزر رہی ہیں۔

بھارت ممبئی کے حملوں، پارلیمنٹ پر دہشت گردی، پٹھان کوٹ، اڑی بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پر حملے کے بعد اب پلوامہ اٹیک کے بعد اپنی سیاست اور الیکشن میں عوام کو بے وقوف بنانے پر جنگی جنون میں تل چکا ہے۔

دسمبر 2018 ء کے عالمی انڈکس کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں بیاسی کروڑ سے زائد انسان بھوک اور کم خوراکی کا شکار ہیں۔ گزشتہ دو برسوں میں یہ تعداد بین الاقوامی سطح پر مسلح تنازعات اور جنگوں کی وجہ سے اور بڑھی ہے۔

پاک و ہند میں بھی سب کے سامنے صورتحال ہے، گزشتہ سالوں میں سندھ میں خشک سالی کے باعث کتنے انسان اور جانور مر گئے، کبھی بلوچستان کے پہاڑوں کا دورہ کرلیں کہ وہ لوگ کیسے جی لیتے ہیں۔ پاکستان کے تو چار صوبے ہیں ہندوستان کی صورتحال اس سے مزید ابتر ہے جہان کے بھوکے لوگ جنگ نہیں کریں گے تو کیا کرین گے، ان کو حکومت نے وسائل اور تعلیم فراہم تو نہیں کی لیکن جنگی جنون فراہم کرنے میں ہر سال کوشش کرتی ہے۔

جاپان اور یورپ کے لوگوں سے جنگ کا پوچھیں وہ نام بھی نہیں لینا چاہتے وہ سیکھ چکے ہیں انہوں نے اپنی سرحدیں بھی اپنی ریاستوں سے لیے کھول دی ہیں۔ امریکہ سے جا کر پوچھ لیں جو افغانستان اور عراق میں اپنے ہزاروں فوجی مروا چکا ہے ان فوجیوں کے گھروں کے احوال گوگل اور یو ٹیوب سے پڑھ لیں۔ ایک جنگ کر لیں نتائج بھگت لیں یہ لائن آف کنٹرول بھی ایک دن کھل جائے گا، چمن، واہگہ اور دیگر بارڈر بھی آخر کھلیں گے۔ کشمیریوں کو بھی آزادی ملے گی لیکن جتنا کشمیر کے لوگوں کا خون بہایا ہے اس طرح ان لوگوں کا خون بہے گا تب جا کر شانتی آئے گی۔

ہم دونوں ملک جنگ سے ناواقف ہیں ہمیں جذبہ پیدا تو ہوجاتا ہے لیکن ہم جانتے نہیں کہ جنگ کے کیسے نتائج ہم بھگت سکتے ہیں۔ ان دونوں جنگ سے نابلد قوموں کے درمیان ایک بڑی جنگ ہو جانی چاہیے یہ دونوں ملک جی بھر کر اپنے جنگی ارمان پورے کر لیں یہ اپنی پانچ دس کروڑ لاشیں بھی دیکھ لیں یہ عوام کو دوا اور خوراک کے بغیر بلکتا بھی دیکھ لیں یہ زندگی کو ایک بار بجلی، ٹیلی فون، پانی، سڑک، ہسپتال اور سکول کے بغیر بھی دیکھ لیں اور یہ پچاس سال تک معذور بچے پیدا ہوتے بھی دیکھیں یہ تب جنگ کو سمجھیں گے ورنہ سمجھنے کے لیے تو 1947 کی تقسیم ہی کافی ہے جس میں اکتیس لاکھ انسان مارے گئے تھے۔ وہ قتل و غارت تھی بچ جانے والے انسان اسے جذباتی رو میں تو ڈھالتے ہیں لیکن جن کے پیارے مرے تھے اب اگر ان کی نسلیں بھی نہیں سیکھ سکیں تو قسمت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).