باطل سے ڈرنے والے ۔۔۔ اے آسماں نہیں ہم!


حالانکہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس سے معیشت کے ساتھ ساتھ دیگر معاملات میں نقصانات کا سامنا ہوتا ہے۔ لیکن جب کوئی ہمارا پڑوسی اکڑ کر ہمیں للکارے اور جارحانہ طریقے اپنائے، ہمارے گھر میں گھس آئے اور ہمارا گریبان پکڑ کر ہمیں اپنی طاقت و غرور کا نشہ دکھائے تو اس وقت اس پڑوسی کو صوفے پہ بیٹھا کے چائے پینے کی پیشکش نہیں کی جاتی، اپنے گریبان کو اس کے ہاتھوں سے باعزت بری کروانے کے لئے سامنے والے کا گریبان پکڑ کے اسے جھنجھوڑنا نہایت ضروری ہو جاتا ہے۔ یہ سمجھانا کے لئے کہ ہمیں بھی ہلکا نہ لو۔

یہاں تک تو بات تھی ذاتیات کی۔ لیکن جہاں بات پوری قوم کی عزت و حفاظت کی ہو تو اس وقت دشمن سے ایسے ہی لڑنا پڑتا ہے جیسے کوئی باغیرت باپ اپنی بیٹی کی عزت بچانے کے لئے لڑتا ہے۔

یوں تو ہندوستان اور پاکستان کی نوک جھوک پاکستان کی تشکیل سے لے کر دورِ حاضر تک چلتی ہی رہی ہے لیکن گذشتہ دنوں جو نوک جھوک، للکار اور چھیڑ چھاڑ مسلسل چل رہی ہے تو اس سے جنگ بڑھنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ مخالف جانب سے اگر معاملات کو نہ سمیٹا گیا تو پاک فوج بھی پیچھے ہٹنے والی نہیں۔

اگر انڈیا نے یہ سوچ رکھا ہے کہ وہ للکارتے رہے، بارڈر پہ فضائی چھیڑ چھاڑ کرتی رہے اور پاکستانی فوج خاموشی سے تماشائی بنی رہے تو یہ تو کسی صورت ممکن نہیں۔ کیونکہ انڈیا شاید چھ ستمبر 1965 کی جنگ کو بھلا چکا ہے یا کارگل کو۔

انڈیا شاید ابھی تک یہ موٹی سی بات نہیں سمجھ پایا ہے کہ مسلمان مذہبی معاملات میں چاہے کتنا کمزور ہو، عملاً چاہے نیک و صالح نہ ہو لیکن ایک رتبے کے لئے وہ کبھی دریغ نہیں کرتا اور وہ ہے ”“ شہادت ”۔ پاکستان کا ہر فوجی ہر وقت جامِ شہادت نوش کرنے کے لئے پیاسا ہے۔ وہ دشمن کے حملے سے ڈرنے والے نہیں بلکہ اینٹ سے اینٹ بجانا جانتے ہیں۔ پاکستان کے ہر اک فوجی کو للکارنا گویا شیر کے منہ میں ہاتھ دینے کے برابر ہے۔

کیونکہ جس قوم کے سپاہ سالار اور ایک ایک سپاہی کے پاس یہ چیزیں موجود ہوں تو اسے دنیا کی کوئی طاقت ہرا نہیں سکتی۔

1۔ جذبہِ شہادت

2۔ خدا پہ بھرپور بھروسا

3۔ عوام کا باقاعدہ ساتھ

4۔ جذبہِ حب الوطنی

جس فوج کو یہ چار چیزیں میسر ہوں وہ کبھی آنکھ سے آنکھ ملانے سے نہیں گھبرائے گی۔

جس ملک کی فوج اور قوم کا ہر فرد شہادت کے رتبہ حاصل کرنے کے لئے خود بے چین ہو تو اسے موت

بھی کیا ڈرائے گی۔

جس ملک کے ایک ایک فوجی کو یقین ہو کہ اگر فوج کو آنچ آئی تو اس ملک کا بچہ بچہ اپنے گھر سے نکل آئے گا۔ ہماری فوج ہمارا اثاثہ، ہماری طاقت اور

ہمارا غرور ہے۔ اگر اس کی خاطر ہمیں پوری دنیا سے ٹکرانا پڑے تو ہم ٹکرائیں گے۔

موت سے ہمیں خوف نہیں جان ہتھیلی پہ رکھ کے بات کریں گے۔ تو ایسی قوم کو بے جا للکارنے سے بہتر ہے کہ انڈیا پہلے معمالے کے نتیجے پہ غور کرے

اورپھر کوئی قدم اٹھائے۔

علامہ اقبال نے ہمارے جذبوں کی بہترین عکاسی کی ہے کہ

”شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).