جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے


برصغیر کی تقسیم کو ستر سال سے زیادہ عرصہ بیت چکا مگر پاکستان اور بھارت آج بھی نفرت کی دلدل سے نکل نہیں پائے۔ جب بھی حالات صحیح ڈگر پر چلنے لگتے ہیں تو پھر کوئی فسادی اٹھتا ہے اور امن کی ساری کوششوں کو نیست و نابود کردیتا ہے۔ جوابی ردعمل کے طور پر دونوں طرف کے عوام شدید جذباتی پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے دعوے کرتے ہیں اور ہیجان کا سا عالم سرحد کے دونوں طرف برپا ہوجاتا ہے۔

بھارت ہمیشہ سے اس جنگی جنون میں ہم سے دو ہاتھ آگے رہا ہے اور خطے کو غیر یقینی صورتحال سے دوچار کرتا رہا ہے۔ ایک دوسرے کو نیست و نابود کردینے کے دعوے کرنے والے شاید اس بات سے آگاہ ہی نہیں ہیں کہ دونوں ممالک ایٹمی استبداد رکھتے ہیں اور ان کے درمیان جنگ کے کس قدر بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔ ان نتائج کا ادراک رکھنے والے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے

بات سے بڑھ کے بات ہوتی ہے

بات کوئی اٹل نہیں ہوتی

جو بھی کرنا صلح سے طے کر لو

جنگ مسئلے کا حل نہیں ہوتی

آگے بڑھنے سے پہلے دونوں ممالک کی جنگی صلاحیتوں کا جائزہ لیتے چلیں۔ یاد رہے کہ یہ دونوں ممالک بیسویں صدی میں ہی ایٹمی طاقتیں بن چکے تھے اور ایٹمی استبداد کا حصول بھی محض ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کیا گیا۔ ایک طرف بھارتی فوج 35 لاکھ فوجیوں اور 13 لاکھ پیراملٹری فورسز کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی افواج میں سے ایک ہے۔ یہ فوج سالانہ 58 ارب ڈالر کا بجٹ استعمال کرتی ہے جو کہ کل بھارتی بجٹ کا تقریباً 25 فیصد بنتا ہے اور یاد رہے کہ یہ محض اعلان کردہ بجٹ ہے۔

بدنام زمانہ انٹیلی جنس ایجنسی را اس فوج کی پشت پناہی کرتی ہے اور دنیا بھر میں اپنے ٹھکانے رکھتی ہے۔ بھارت کے پاس اس وقت 130 ایٹمی ہتھیار ہیں جو مختلف حجم اور وزن کے ہیں جن میں میزائل ٹیکنالوجی سے لیس ہتھیار بھی شامل ہیں۔ دوسری طرف پاکستانی افواج 10 لاکھ ملٹری اہلکاروں اور 6 لاکھ پیرا ملٹری فورسز کے ساتھ دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے۔ اس فوج کو دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد بھی حاصل ہے۔

پاکستان کا دفاعی بجٹ تقریباً 11 ارب ڈالر ہے جو کہ تمام ملکی اخراجات کا لگ بھگ 18 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان اس وقت 140 ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ اس دوڑ میں تیسرے نمبر پر ہے اور بھارت پر برتری رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے پاس دنیا کی بہترین میزائل ٹیکنالوجی بھی موجود ہے۔ گویا دونوں ممالک بھرپور جنگی صلاحیتوں کے حامل ہیں اور ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ یاد رہے کہ یہ تمام جنگی صلاحیتیں دونوں ممالک محض ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے حاصل کرتے رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی دونوں ملک اس جنون میں بہت آگے جا چکے ہیں۔

بنام امن ہیں جنگ و جدل کے منصوبے

بہ شور عدل، تفاوت کے کارخانے ہیں

اب ذرا تصور کرتے ہیں کہ اگر دونوں ممالک میں جنگ چھڑ جاتی ہے تو کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ جب امریکا نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرایا تو اس وقت ایٹمی ٹیکنالوجی اپنی ابتدائی شکل میں تھی اور اتنی مہلک نہ تھی مگر پھر بھی لاکھوں لوگ آن کی آن میں لقمہ اجل بن گئے اور لاکھوں مختلف امراض میں مبتلا ہوگئے۔ پاکستان اور بھارت کے پاس موجود ایٹمی ہتھیار اس ایٹم بم سے سینکڑوں گنا زیادہ مہلک ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق اگر دونوں ممالک اپنے ایٹمی ہتھیاروں کا ایک چوتھائی بھی استعمال کرتے ہیں تو سرحد کے دونوں اطراف لگ بھگ بیس چھوٹے بڑے شہر مکمل طور پر تباہ و برباد ہو جائیں گے۔

15 کروڑ لوگ ایک لمحے میں جل کر راکھ ہوجائیں گے اور دونوں ممالک کی آنے والی کئی نسلیں گونگی، بہری اور اندھی پیدا ہوتی رہیں گی۔ حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھا جائے تو اگر بھارت سے نئی دہلی اور ممبئی اور پاکستان سے لاہور اور کراچی کو نکال دیا جائے تو دونوں ممالک اپنا وجود ہی برقرار نہیں رکھ سکیں گے اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ ماہرِ طبیعات پرویز ہود بھائی کے بقول ایٹمی جنگ کی صورت میں اگلا پورا سال برصغیر میں سورج نظر نہیں آئے گا اور محض راکھ اور دھوئیں کے بادل چھائے رہیں گے۔ اس کا نتیجہ زراعت اور صنعت کی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔ لہذا جنگ کی بڑھکیں مارنے والے سن لیں کہ اس بار جنگ میں کسی کو فتح نہیں ہوگی بلکہ واحد نتیجہ پورے خطے کی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔

جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

جنگ کسی مسئلے کا حل ہی نہیں

اب اگر تھوڑی دیر کے لیے سوچیں کہ دونوں ممالک اگر امن پر رضامند ہوجائیں اور اپنی تمام تر توانائیاں اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کریں تو کیا ہی اچھا ہو۔ اپنی نمبرداری کا دعویدار بھارت کیوں بھول جاتا ہے کہ اس آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ تین چوتھائی آبادی کو زندگی کی بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں ہیں۔ دونوں ممالک کی اکثریت دو وقت کی روٹی کو ترس رہی ہے اور حاکموں کے آگے ہاتھ جوڑے درخواست کررہی ہے کہ خدارا ان ہتھیاروں کو بیچو اور عوام کو رواٹی کپڑا اور مکان دو۔

اگر آج بھی دونوں ممالک اور بالخصوص اپنی روایتی ڈگر سے ہٹ کر امن کی طرف آجائیں تو یہ اس خطے کے لیے ایک نیک شگون ہوگا اور دو ارب آبادی تباہی سے بچ جائے گی۔ آئیں اربابِ اختیار کو اس جانب سوچنے کی دعوت دیتے ہیں۔ عہد کرتے ہیں کہ آئندہ نفرتیں پھیلانے والوں کا ساتھ نہیں دیں گے بلکہ اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے جو امن اور آشتی کی بات کرے گا۔ جو اللہ اور رام دونوں کے ماننے والوں کی فلاح کی بات کرے گا۔ جو گرونانک کا سیوک بھی ہوگا اور حسینی لنگر بھی کھائے گا۔ ہمیں اس وقت ایسے لوگوں کی ضرورت ہے۔

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

‏جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

‏آگ اور خون آج بخشے گی

‏بھوک اور احتیاج کل دے گی

اب آتے ہیں حالیہ صوتحال کی طرف۔ ایک طرف بھارت جنگی جنون کی انتہاؤں کو چھو رہا ہے اور دوسری طرف ہم لائلپور میں بابا گرونانک کو خراجِ تحسین پیش کرنے اور جلیانوالہ باغ کے شہیدوں کی یاد تازہ کرنے کے لیے پنجابی سلیکھ میلہ منا رہے ہیں۔

یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ حالیہ سرحدی کشیدگی کا ذمہ دار بھارت ہے اور وہ ہم پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہماری سرحدی حدود میں دراندازی کرکے وہ ہمیں ایک طرح سے للکار رہا ہے مگر ہماری قیادت ابھی تک صبر و تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے جوکہ ایک نیک شگون ہے۔ یہ صورتحال واضح کررہی ہے کہ بھارت اس خطے میں امن کا دشمن ہے اور پاکستان ابھی بھی افہام و تفہیم سے مسائل کے حل میں یقین رکھتا ہے۔ تاہم ایک بات بالکل واضح ہوجانی چاہیے کہ اگر یہ جنگ زبردستی ہم پر مسلط کردی گئی تو پھر دفاع کا حق ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ ہم ہر ممکن حد تک جنگ کی مخالفت کریں گے لیکن اگر ہمیں لڑنا ہی پڑا تو پھر ہم اپنی آئندہ نسلوں کو اپنی بزدلی کی کہانیاں سننے کے لیے نہیں چھوڑ سکتے۔

ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف

گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).