جنگ مسئلہ کا حل نہیں تو جنگجوئی کی باتیں بھی بند کی جائیں


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہنوئی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی ختم کرنے کے بارے میں مثبت اور اچھی خبر موصول ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کئے بغیر امید ظاہر کی تھی کہ برصغیر میں جاری موجودہ تصادم جلد ہی اختتام پذیر ہوجائے گا۔ اس دوران پاک افواج سرحدوں پر چوکنا کھڑی ہیں اور ملک کی ائیر سپیس جمعہ تک کے لئے بند ہے۔ اس فیصلہ سے پاکستان سے جانے اور آنے والے مسافر ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ دور دراز ملکوں میں واقع ہوائی اڈوں سے چلنے والی متعدد ائیر لاینز کی پروازیں بھی منسوخ ہوئی ہیں۔ اس طرح یورپ اور ایشیا کے کئی شہروں سے سفر کرنے والے مسافروں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تصادم کے نتیجے میں صرف دنیا کے مسافر ہی متاثر نہیں ہوں گے بلکہ اس بات کا بھی شدید اندیشہ ہے کہ اگر یہ تصادم سنگین صورت اختیار کرتا ہے تو اس کے دنیا کے ماحول اور سلامتی پر بھی دوررس نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے منہ سے برصغیر سے ملنے والے مثبت اشاروں کی بات کے چند ہی گھنٹے بعد اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے خیر سگالی کے اظہار کے طور پر گزشتہ روز آزاد کشمیر میں پکڑے جانے والے بھارتی مگ۔21 کے پائیلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن کو رہا کرنے کا اعلان کیا۔ انہیں جمعہ کے روز واہگہ بارڈر پر بھارتی حکام کے حوالے کیا جائے گا۔ پاکستانی حکومت کے اس اظہار خیر سگالی سے بھی یہ امید کی جاسکتی ہے کہ درپردہ بات چیت اور دنیا بھر کی حکومتوں کی طرف سے روابط کے نتیجہ میں نئی دہلی حکومت ہوش کے ناخن لینے پر مجبور ہوچکی ہے۔ اس بار صرف اہل پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کو اس بات کا یقین ہے کہ لائین آف کنٹرول پر جارحیت کا آغاز بھارتی ائیر فورس نے کیا تھا ۔
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے پرسوں ہی واضح کردیا تھا کہ بھارتی طیارے پاکستانی حدود میں داخل ضرور ہوئے تھے لیکن پاک فضائیہ کی طرف سے چیلنج کرنے کے بعد انہیں عجلت میں راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔ بھارت کے مگ فائیٹر جاتے ہوئے اپنا ’پے لوڈ‘ جسے دوسرے لفظوں میں جنگی جہاز کے ساتھ منسلک بم اور میزائل کہا جاسکتا ہے، بالا کوٹ کے نزدیک ویران مقام پر پھینک گئے تھے۔
بھارت نے پاکستانی معلومات کے برعکس وزارت خارجہ کے سیکرٹری گھوکالے کے ذریعے اعلان کیا کہ بھارتی فضائیہ نے پاکستانی علاقے میں جیش محمد کے بہت بڑے تربیتی کیمپ پر کامیاب حملہ کیا تھا جس میں ساڑھے تین سو دہشت گرد مارے گئے۔ یہ اعلان اس لحاظ سے بھی ناقابل اعتبار تھا کہ دہشت گرد کبھی بڑے گروہوں کی صورت میں جمع نہیں ہوتے اور نہ ہی اتنی بڑی تعداد میں کسی ایک مقام پر لوگوں کے مرنے کے بعد اس خبر کو چھپانا پاکستان کے لئے ممکن ہوسکتا تھا۔ لیکن پلوامہ سانحہ کے بعد آنکھوں میں خون اتار کر انتقام کا نعرہ بلند کرنے والا بھارتی میڈیا اس خبر کو دن بھر اچھالتا رہا اور دنیا بھر کے مبصر منہ میں انگلیاں دبا کر سچائی جاننے کی کوشش میں مگن رہے۔
پاکستان میں اس خبر پر اطمینان کا اظہار تو کیا گیا لیکن اس کے باوجود یہ سوال اٹھایا گیا کہ بھارتی طیارے اگر لائن آف کنٹرول عبور کرکے پاکستانی علاقے پر پرواز کررہے تھے تو پاکستانی دفاعی نظام نے ان میں کسی طیارے کو مار کیوں نہیں گرایا۔ دفاعی ماہرین اس کی متعدد وجوہات بیان کرتے ہیں لیکن بدھ کے روز پاک ائیرفورس بھارتی جارحیت کا ’کرارا‘ جواب دے دیا۔ آئی ایس پی آر کی اطلاع کے مطابق پاکستانی فضائیہ نے لائن آف کنٹرول کے پار متعدد ’غیر عسکری‘ ٹارگٹس کو انگیج کیا اور جب بھارتی فضائیہ کے طیارے پیچھا کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول عبور کرکے آزاد کشمیر کے علاقے میں داخل ہوئے تو پاک فضائیہ نے دو بھارتی مگ۔21 فائیٹر مار گرائے۔ اور ایک بھارتی پائیلٹ کو گرفتار کرلیا گیا۔
پاک فضائیہ کی اس کامیابی کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی قیادت کو ایک بار پھر مذاکرات اور امن کی پیش کش کی اور کہا کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا لیکن دونوں ملکوں کے باہم دست و گریبان ہونے سے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی۔ انہیں آپس میں بات کرنی چاہئے۔ بھارت کی طرف سے اس پیش کش کا مثبت جواب دینے کی بجائے پاک فضائیہ کی ’جارحیت‘ پر احتجاج کیا گیا۔ لیکن عام طور سے پاکستان کے خلاف گرجنے برسنے والے مودی اور بھارتی میڈیا اس اچانک صورت حال اور پاکستان کے جواب پر کوئی ٹھوس جواب دینے میں ناکام رہے۔
آج شام بھارتی مسلح افواج کے کمانڈروں نے اپنےتئیں پاکستانی کارروائی کی وضاحت کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی طیاروں نے بھارتی فوجی چوکیوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی لیکن بھارتی فضائیہ نے انہیں واپس جانے پر مجبور کردیا۔ اس پریس کانفرنس میں کہا گیا ہے کہ بھارتی ائیر فورس نے پاکستان کا ایک ایف سولہ طیارہ مار گرایا ہے۔ تاہم یہ طیارہ پاکستانی علاقے میں گرا جس کہ وجہ سے بھارت کوئی ’ثبوت‘ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ یوں بھی بھارتی کمانڈروں نے کہا ہے کہ ثبوت دینے کا فیصلہ سیاسی قیادت کو کرنا ہے۔ اس کے باوجود اس پریس کانفرنس میں اس میزائل کا ٹکڑا ’ثبوت‘ کے طور پر پیش کیا گیا جو بھار تی ائیر فورس کی قیادت کے بقول پاکستان کے ایف سولہ طیاروں نے بھارتی فوجی تنصیبات پر گرائے تھے۔ البتہ پاکستانی اخبار ایکسپرس ٹریبیون نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں ثابت کیا ہے کہ بھارتی جرنیلوں نے جس میزائل کا ٹکڑا صحافیوں کو دکھایا ہے، وہ دراصل امریکہ نے تائیوان کو فروخت کئے تھے۔
اس دوران بھارتی اپوزیشن کی 21 سیاسی پارٹیوں نے اپنی افواج کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنے کے باوجود ایک مشترکہ بیان میں حکومت پر انڈیا کی فوج کی قربانیوں پر ’ کھلم کھلاسیاست‘ کرنے کا الزام لگایا ہے۔ حزب اختلاف نے ملک میں سلامتی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ اسے اُن تمام معاملات پر اعتماد میں لیا جائے جن سے انڈیا کی سالمیت اور وقار پر اثر پڑتا ہو۔ بھارتی اپوزیشن نے اس تشویشناک صورت حال میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس نہ بلانے پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ اس دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے دو روز بعد خاموشی توڑتے ہوئے بی جے پی کارکنوں سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’دشمن انڈیا کے خلاف دہشتگردی کی معاونت کرتا ہے تاکہ ہماری ترقی کو روکا جا سکے۔ ملک اس وقت امتحان سے گزر رہا ہے۔ اس مرحلے پر ہمیں اپنی سیکورٹی فورسز کا حوصلہ بلند رکھنا ہے۔ انڈیا متحد کھڑا رہے گا، متحد ہو کر کام کرے گا، متحد ہو کر ترقی کرے گا، انڈیا متحد ہو کر لڑے گا اور جیتے گا‘۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کے برعکس پاکستان میں آج پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہؤا۔ ا جلاس میں وزیر اعظم اور اپوزیشن پارٹیوں نے بھارتی جارحیت کے خلاف یک آواز ہونے کا اعلان کیا۔ وزیر اعظم کی طرف سے ایک بار پھر امن اور مذاکرات کی دعوت دی گئی۔ تاہم وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈروں نے پاک فضائیہ کی توصیف کرتے ہوئے پر جوش طرز خطابت اختیار کرنا ضروری سمجھا۔ ان بیانات میں ’پاکستان کو کمزور نہ سمجھا جائے‘ اور یہ کہ ’جنگ ہمت و حوصلہ سے لڑی جاتی ہے ‘ ۔ یا یہ کہ ’پاکستان کا بچہ بچہ اپنی افواج کے ساتھ ملک کر ملک کا دفاع کرے گا‘ جیسے نعرے بھی سننے کو ملے۔ ملکی میڈیا میں بھی ان نعروں کی گونج سنائی دیتی ہے۔
پاکستان کو شاید تاریخ میں پہلی بار سفارتی اور عسکری لحاظ سے بھارتی بیانیہ اور پوزیشن پر برتری حاصل ہوئی ہے۔ پاکستان نے اپنی سرحد کا دفاع کرنے کی صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ تاہم بھارتی حکومت اور میڈیا کی طرح پاکستانی قیادت اور صحافیوں کو بھی سمجھنا چاہئے کہ جنگ ہولناکی کا نام ہے۔ جب بم گرائے جاتے ہیں، شہر تباہ ہوتے ہیں یا لاشیں اٹھتی ہیں تو بہادری یا حوصلہ کام نہیں آتا بلکہ اس نقصان کا ازالہ کرنے کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ ملک میں وزیر اعظم کے پیغام امن کو سراہا جارہا ہے۔ لیکن جنگ کے خلاف بات کرتے ہوئے جنگجوئی کی باتیں زیب نہیں دیتیں اور نہ ہی اس سے دشمن یا دوستوں کو مرعوب کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کو اس وقت بھارت پر جو سفارتی برتری حاصل ہوئی ہے، اسے استعمال کرتے ہوئے امن کا ماحول بنانے اور اقوام عالم کے تعاون و اعانت کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام جنگ کو مسترد کرتے ہوئے ہی کیا جاسکتا ہے۔ پاک فضائیہ سرحدوں کی حفاظت کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرچکی ہے تاہم اس موقع پر ’جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی ‘ جیسا بیانیہ اختیار کرکے خود فریبی کا شکار ہونے سے گریز کی بھی ضرورت ہے۔
دنیا بھر کے لوگوں کی طرح پاکستان کا ہر معقول شہری بھی امن چاہتا ہے۔ کیوں کہ جنگ میں کسی کی فتح یا ہار نہیں ہوتی۔ یہ بات بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی یاد رکھنی چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali