پاک۔ بھارت کشیدگی۔ الباکستانیوں کے لیے چار سبق


جذباتیت کا اک گندا نالہ تھا، جو بھارت نے بہا دیا۔

اس نالے سب سے پہلے میں جاوید اختر بہے، شبانہ اعظمی بہیں۔ پریانکا چوپڑا بہہ نکلیں۔ رنویر سنگھ نے بھی خوب ڈُبکیاں لگائیں۔ اجے دیوگن بھی مونچھوں پر کڑوا تیل ملے نظر آئے۔ ٹنڈولکر صاحب بھی ”ہندوستانی حملے“ پر خوشی سے پھوٹ پڑے۔ اپنی باقی ماندہ ساری عمر شناختی بحران میں زندہ رہنے پر مجبور، عدنان سمیع خان بھی بالا کوٹ پر ہندوستانی سینا کے یُدھ پر خوشی کے پھولے نہیں سما رہے تھے۔

اور یہ تمام کے تمام وہ لوگ ہیں جو اپنے اپنے پیشوں کے حوالے سے ”امن کے پیامبر، خوشیاں بانٹنے والے“ وغیرہ وغیرہ ہیں۔ یہ ان جیسے امن پسندوں کا حال تھا، تو جو بھارتی جنگ پسند ہیں، ان کی ٹھاٹھیں آپ خود ہی تصور کر لیجیے۔

تقریبا تمام کی تمام ہندوستانی ”صحافت“ بھی نالے کے اس گارے کو چمن پراش بنا کر چاٹتی اور چٹواتی رہی۔ اک عجب سا شور تھا، جو طاری تھا، اور اب بھی ہے۔ اک بھی صحافی ایسا نظر نہ آیا جس کی سوشل میڈیا یا روایتی میڈیا پر گفتگو یا بیانیہ امن اور دھیرج پر بنیاد کرتی تھی۔ اگر سب کے سب نہ بھی سہی، تو شاید نوے فیصد صحافی دماغی بونے ہی برآمد ہوئے۔

نوجوت سدھو اور سنیل گواسکر کے علاوہ، رام سبرامنیم اور گنی چنی نہایت ہی کم آوازیں ایسی تھیں جو جنگ کے خطرات کے حوالے سے گفتگو کر رہی تھیں۔

بحثیت اک معاشرہ، ہندوستان کی اک کریہہ، بھدی، غصیلی اور بے کار تصویر ابھر کر آئی۔ اور اس پر اک مسکراتی حیرت ہی ہوتی رہی کہ یار، ہم تو ٹھہرے غیرجمہوری، دہشتگردوں سے بھرے اور شورش پر آمادہ اک پسماندہ معاشرہ، یہ سیکولر چہرہ رکھنے والے، اہنسا کے پجاریوں سے بھرے، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار ملک میں اگر منطقی برآمدگی یہی ہے، تو جناب، پھر ”شکریہ بابا جناح“ کہنا بنتا ہی ہے۔

امن کی بھاشا بولنے والے اکثریتی بھارتی، اور پاکستانی احباب بھی اس بات کو گویا اک وجہ سمجھتے اور سمجھاتے ہوئے نظر آئے کہ جناب، مودی صاحب کا الیکشن ہے تو انہیں اک جنگ چاہیے، کیونکہ بھارتی الیکشنوں میں پاکستان، اک موضوع ہوتا ہے۔

ایسی ہی اک گفتگو میں، میں نے پوچھا کہ جناب، یہ کوئی وجہ ہے کہ جنگ کے طبل بجا دیے جائیں؟ اور آخری مرتبہ کب تھی جب پاکستانی الیکشنز میں بھارت بھی کبھی کوئی موضوع تھا۔ کوئی جواب موصول نہ ہوا۔ اور ہو گا بھی نہیں۔

پاکستانی سماج اور صحافت بھی تھوڑی دیر میں گرم ہو ہی گئے، مگر گرمی اور بدبو میں، بھارت مہان کا کوئی مقابلہ نہ کر سکے۔

تناؤ کے اس تناظر میں ویسے تو الباکستانیوں کے لیے دس سبق ہیں، مگر فی الحال چار پر گزارا کریں، باقی پھر سہی:

1۔ سب سے پہلے صاحبان، جنگ اچھی شے نہیں۔ یہ تباہی لاتی ہے۔ یہ معاشرے، ملک، قومیں، ریاستیں تباہ کر دیتی ہے۔ اس سے اپنی انا کی قیمت پر بھی بچنا، گھاٹے کا سودا نہیں ہوتا۔

2۔ محترمین، آپ کی امن کی بانسریاں اپنی جگہ بھلے بجتی اور سُر بکھیرتی رہیں، دنیا کی ہر قوم کو اک مضبوط دفاع چاہیے ہوتا ہے۔ جو قومیں اپنا دفاع نہیں کر سکتیں، وہ افغانستان، یمن، شام، عراق، لیبیا، صومالیہ وغیرہ بن جاتی ہیں۔ پاکستان کا دفاع مضبوط سے مضبوط تر ہونا چاہیے اور اس میں جوابی وار کی صلاحیت بھی لازم رہنی چاہیے۔ فطری اور انسانی نظام، جبر، دباؤ، ظلم اور نا انصافی کے حقائق پر بنیاد کرتے ہیں۔ آپ کے یا میرے امن پسندی کے آدرشوں پر نہیں۔ پاکستان کو امن اور جنگ، دونوں کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے۔ امن کو لازما چاہنا چاہیے۔ مگر جنگ میں دھکیلے جانے پر، شدید اور بہترین لڑنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔

3۔ یہ دنیا، معاشی اہمیت کی دنیا ہے۔ مذہبی محبتوں کی نہیں۔ پیسہ کڑکڑا کر بولتا ہے۔ ورد وظیفوں اور دم درودوں پر بنیاد کرتی اک نام نہاد یگانگت اور یکجہتی گونگی شے ہے۔ پاکستان کو امیر ملک بننا چاہیے۔ امارت کے بغیر آپ کی انفرادی یا قومی بڑھکیں، بہت ہوا تو نشے میں چُور غل غپاڑہ کرتے محلے کے اک بدمعاش کے نعرے ہیں، اور کچھ نہیں۔ انفرادی اور قومی امارت سے محبت کیجیے۔ امیر ہونا لازم ہے۔ بھوکے کی تو سگی ماں عزت نہیں کرتی۔ دنیا کیا کرے گی؟

4۔ پرائی جنگیں پاکستان میں لانے والے یا پرائی جنگیں لڑنے والے پاکستانی ادارے اور افراد بھی اس بات کو جان لیں کہ ایسا کرنے سے پاکستانی معاشرہ اور ریاست ہی برباد ہوتے ہیں۔ برادر مسلم ممالک تو اسلامی ممالک کی کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ کو مہمان خصوصی کے طور پر بلوا لیتے ہیں اور آپ اپنی تشریف پر خود ہی چھِتر برسا کر اُمہ کے تیزابی چورن کے کھٹے ڈکاروں کے مزے لے رہے ہوتے ہیں۔ ادارے خود بھی اس دھوکے میں سے نکلیں اور عوام کو بھی اُمہ کے اس جھوٹ سے باہر نکلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔

اوپری سبق یاد کر لیں۔ فائدہ میں رہیں گے، جناب۔

آخر میں کہنا یہ ہے کہ میرے وطن کی باگیں پکڑے سیاسی اور ریاستی اہلکار کچھ تخیل اور تخلیق کا مظاہرہ کریں۔ پاکستان کے امیج کو بہتر کرنا راکٹ سائنس نہیں۔ آپ اگر پچھلے بیس برس میں اک اقلیت کی وجہ سے اکثریت کے امیج کو خرابی سے نہیں بچا پا رہے تو جناب، یہ خود آپ پر اک بھدا تبصرہ ہے۔ اور یہ کام چوہا دوڑ میں مصروف اپنی پینشنیں کھری کرتے سرکاری بابوؤں یا افسروں سے نہیں ہو پائے گا۔ اگر ہو پاتا ہوتا، تو ہو چکا ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).