ایک دن کی زندگی


”ایک دن کی زندگی“ آزاد مہدی کا چوتھا ناول ہے۔  اس سے پہلے وہ ”میرے لوگ“،  ”دلال“ اور ”اس مسافر خانے میں“ کے ساتھ اردو ناول کی دنیا میں اپنی آمد کا اعلان کر چکا ہے۔  آزاد مہدی ناول لکھنے والوں کے قبیلے کا وہ خوش نصیب فرد ہے جس کے دو یا دو سے زیادہ ناول چھپ چکے ہیں۔  چار ناول لکھنا تو دور، خالی پڑھنا مشکل ہوتا ہے کیوں، وجہ یہ ہے کہ محنت لگتی ہے۔  خون خرچ ہوتا ہے۔  ہم بحیثیت قوم آرام پسند واقع ہوئے ہیں۔

جس کام پر تھوڑی سی توجہ دینی پڑھے ہم وہ کام نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعری کی دنیا میں قوافی کا کاروبار جاری ہے اور پتا نہیں کب تک جاری رہے گا۔ کہیں کہیں ایسے شعر بھی مل جاتے ہیں جو لفظ کی حرمت کو پہچانتے ہوئے الفاظ کو ضائع نہیں کرتے۔  آزاد مہدی نثر لکھتا ہے۔  نثر لکھنے والے سے پاؤں توڑ کر بیٹھنے کا تقاضا کرتی ہے۔  وہ ناول کی دنیا میں اس طالب علم کی طرح ہے جو یہ جاننا چاہتا ہے کہ انسانی باطن کے اندر کیا بھید چھپا ہے۔

وہ انسانی داخل میں پرت در پرت شکلیں بدلتی ہوئی زندگی کو سمجھنا اور سمجھانا چاہتا ہے۔  ”ایک دن کی زندگی“ میں ایک طوائف کی ایک دن کی زندگی کو مرکز بنایا گیا ہے۔  مہدی کاکمال یہ ہے کہ اپنے محدود پلاٹ کے اندر رہ کر اس نے یہ ناول مکمل کیا ہے یعنی وہ آزادی جو مختلف کردار اور واقعات کی تشکیل سے ناول نویس کے سفر کو آسان کر سکتی ہے، اس نے قبول نہیں کی۔ مہنگا سودا کیا ہے۔  ناول میں کئی جگہ یہ احساس ہوا کہ اس کے بعد کیا منظر ہے جو وہ دکھائے گا۔ کون سا جذبہ ہے جسے لے کر نیا پیکر عطا کرے گا۔

مگر مہدی شاطر واقع ہوا ہے۔  جہاں پھنستا ہے وہاں خودکلامی کی کیفیت پیدا کر لیتا ہے۔  کہیں آئینے سے تخاطب کی صورتیں ہیں اور کہیں ماضی سے اچھے دن چن کر لے آتا ہے۔  طوائف جو اس ناول کا مرکزی کردار ہے ایک ہی غم میں ہلکان ہوئی جا رہی ہے کہ وقت اس کے ساتھ کیا کرے گا۔ ہر کسی کا اپنا اپنا اثاثہ ہوتا ہے۔  طوائف کا اثاثہ اس کا وقت ہوتا ہے، اس کا جوبن ہوتا ہے۔  جوبن جو شعلے کی مانند ہے جسے وقت کی ہوا راکھ کر دیتی ہے۔ جوبن ختم، کھیل ختم۔

مرکزی کردار دبدھا میں پھنسا ہوا ہے اور اس کے وجود کے ساتھ کئی پیراسائیٹ چمٹے ہوئے ہیں۔  درزی، ماشکی، مصور غرض اپنی اپنی احتیاجات کو سراب کر رہے ہیں جب کہ طوائف کی احتیاب آف شور کمپنی نہیں بلکہ دو وقت کی روٹی اور شام کے وقت کنگھی چوٹی اور مسکارے کا خرچہ۔ خیر اس جگہ کہانی کا بیان مناسب نہیں۔  مہدی نے جتنا فکشن لکھا اس میں انسانی المیے کو بیان کرنے کا عنصر غالب ہے۔  وہ مسئلے کے بغیر قلم نہیں اٹھاتا۔

کچھ کچھ ایسی ٹیڑھ دیکھتا ہے کہ اسے بیان کیے بغیر چین نہیں آتا۔ اسے جُملہ لکھ کر خود اس سے حظ اٹھانا اچھا لگتا ہے۔  کئی اوقات وہ جملے کی چاشنی پر منظر کو قربان کر دیتا ہے۔  اس کی نثر میں جلدی کا عنصر بھی پایا جاتا ہے ایسے جیسے کسی مسافر کو خدشہ ہو کہ وقت کم ہے اور فاصلہ زیادہ۔ مہدی زیادہ سفر طے کرنا ضروری نہیں، جتنا چلو، استقامت کے ساتھ چلو۔ تم وہ ناول نگار ہو جس نے ایک دن کی زندگی کے آخری حصے میں کہرام برپا کر دیا۔

مقروض یعنی طوائف مر چکی ہے اور قرض خواہ اس انتظار میں ہیں کہ ابھی جاگے گی اور ہمیں ہمارا قرضہ واپس کر دے گی۔ مگر وہ دنیا والوں کے قرض سے زیادہ زندگی کے قرض کی ادائیگی کو مقدم جانتی ہے۔  آزاد مہدی مرکزی کردار کی مدد سے ایوانِ شاہی میں سوئے ہوئے ان ضمیروں کو بتانا چاہتا ہے کہ تمھارے اقتدار میں لوگ کس طرح جی رہے ہیں؟ کس طرح مر رہے ہیں؟ کوئی نہیں جاگے گا، یہ منطقہ باردہ کے لوگ ہیں۔  انھیں کیا خبر حرارت کیا ہے؟ روشنی کیا ہے؟ زندگی کیا ہے انھیں تو ہر وقت جمہوریت کی نہیں، خودساختہ جمہوریت کی فکر ہے جو ہر وقت خطرے میں پڑی رہتی ہے۔  آزاد مہدی، تم اچھے ہو، غیرت مند ہو، ہمیشہ اپنا ووٹ مظلوم کے پلڑے میں ڈالتے ہو، تمھارا کچھ نہ کچھ تعلق کربلا سے ضرور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).