جنگ کا جنون اور نہ پاک-انڈیا دوستی کا شوق


نوے کی دہائی میں پیدا ہونے والے بچے مجھ سمیت سبھی انڈین کلچر دیکھ دیکھ کر جوان ہوئے ہیں۔ شادیوں میں انڈین گانے۔ رسومات بھی ہندووانہ۔ یہاں تک کہ مزاج بھی اب تو ہندووانہ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ انڈیا کے گیت گاتے ہیں اور پاک انڈیا دوستی کے گن گاتے پھرتے ہیں۔ تاج محل ہمیں بھاتا ہے۔ اور نوجوانوں کے خوابوں میں تو وہاں کی میک اپ زدہ اپسرائیں آتی ہیں۔ کچھ بھی پاکستانی تو ہمیں پسند نہیں۔ 14 اگست کو جھنڈا اٹھا کر بس پاکستانی بن جاتے ہیں۔ لیکن تاریخ کو بھول چکے ہیں۔

میں خود تاریخ کی طالبہ ہوں۔ لیکن تاریخ کو صرف پڑھنے کی حد تک لیا۔ کتابیں پڑھی نمبر لیے اور بس۔ تھوڑا دکھ بھی ہوا کہ وطن کیسے بنا لوگوں نے کیا کیا سہا۔ بچپن سے پاک فضائیہ کا حصہ بننے کا خواب تھا۔ لیکن وہ محبت وہ درد نا تھا جو اب محسوس ہوتا ہے۔

شاید اسی لیے کہتے ہیں جب تک چوٹ نا لگے درد محسوس نہی ہوتا۔ بڑے کہتے ہیں ہر کام کے پیچھے کچھ بہتر ہی ہوتا ہے۔ صحیح کہتے ہیں۔ بہتر ہوا

پلوامہ سے لے کر ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی اور ابھی نندن تک۔ ان سب میں انڈین میڈیا، ان کی عوام اور سیاستدانوں کے رد عمل نے پاکستان کو ایک کر دیا۔ اپوزیشن، حکومت ایک ہو گئی۔ یوتھیے اور نونیے جیسے ایک دوسرے کو القابات دینے والے اب سب پاکستانی ہو گئے۔ عمران خان کو میں نے بھی My Prime minister کہا اور دل سے فخر محسوس کیا۔

میرے اندر بھی انڈیا دوستی کا ایک چھوٹا سا پودا تھا جس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ وہ انڈین فنکار جو کبھی بہت پسند تھے آج ان سے نفرت ہونے لگی ہے۔ شاید اسی کو کہتے ہیں مٹی کی محبت، ۔ یہ اندر تو تھی لیکن گزرتے وقت کے ساتھ کہیں دب گئی تھی آج بہت شدت سے محسوس ہوئی ہے۔

مجھے آج محسوس ہوتا ہے کہ کیا درد جھیلا گیا ہو گا 1947 سے پہلے۔ کیوں کانگرس سے بھروسا ختم ہوا اور کیوں مسلم لیگ بنائی گئی۔ کیوں الگ ملک کا مطالبہ کیا گیا۔

انڈیا سے دوستی کا بھوت والے تو شاید اب سمجھ گئے ہیں۔ لیکن انڈیا سے جنگ بھی ہم جھیل نا پائیں گے۔ یہ بھی سمجھنا ہو گا۔ بلاشبہ ہماری فوج بہترین ہے۔ اور ان میں بھرپور صلاحیت بھی ہے۔ لیکن میں یہ بھی جانتی کہ اپبی جان وطن پر قربان کرنا آسان ہے۔ بہ نسبت اپنے پیاروں کے۔ اور جنگیں سرحدوں پر نہی شہری علاقوں پر بھی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہے۔

جنگ کو ایک کھیل سمجھ لینے والے انجان ہیں جنگ اور اس کے قہر سے۔ کمپوٹر پر بیٹھ کر ایکشن گیمز کھیل لینے کو جنگ سمجھنے والے بچوں کو تاریخ پڑھانی چاہیے۔ ہیرو شیما ناگاساگی سے شروع کریں۔ کیسے 30 سییکنڈ میں دو شہر اجڑ گئے۔ اپنے ملک کی ہونے والی جنگوں کا ہی حال پڑھ لیں۔ کیا سمجھتے ہیں کہ لائٹیں جلتی رہیں گی، ٹی وی دیکھتے دیکھتے شہید اور زخمی گنتے رہو گے تو جنگ ہو جائے گی۔ ؟

دشمن کے جہاز تمھارے علاقوں پر منڈلائیں گے۔ کرفیو لگے کا۔ بلیک آوٹ ہو گا۔ اور کھانے پینے کی اشیا تک رسائی ناممکن ہوتی جائے گی۔ کبھی کوئی ایریا تباہ ہو گا تو کبھی دوسرا ٹاون۔ اب تلواروں اور گولیوں کا زمانہ نہیں ہے۔ اب تو ایٹمی جنگ ہو گی۔ عالمی اسلحہ منڈی کی تو نگاہیں ہی جنگوں پر ہوتی ہے۔ گوادر بھی بہت سے لوگوں کی نگاہ میں کھٹک رہا ہے۔ اس لیے پناہ مانگیں۔ اللہ سے عافیت مانگا کریں۔ ہمیں اب نا جنگ کا جنون رکھنا ہے اور نا ہی پاک انڈیا دوستی کا شوق۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).