ایبٹ آبادکے بارے میں


ایبٹ آباد، ضلع ایبٹ آباد کا صدر مقام اور صوبہ خیبر پختونخوا، پاکستان کا ایک اہم شہر ہے۔

سطح سمندر سے اس کی بلندی 4120 فٹ ہے۔ راولپنڈی سے 101 کلومیٹر دور یہ پاکستان کا پرفضا مقام ہے۔ 1998 کی مردم شماری کے مطابق اس شہر کی آبادی 881,000 افراد پر مشتمل ہے اور 94 فیصد افراد کی مادری زبان ہندکو اور پہاڑی علاقے میں پہاڑی زبان بولی جاتی ہے۔

ایبٹ آباد میں کئی مشہور سکول اور تعلیمی ادارے ہیں۔ برطانوی دور حکومت میں قائم شدہ آرمی برن ہال کالج اور پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول ان میں اہم تعلیمی ادارے ہیں جو کہ فوجی اور سول تعلیم کے لئے پاکستان میں شہرت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے شہر کراچی کو جس طرح روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے اسی طرح ایبٹ آباد کو بھی سکولوں کا شہر کہا جاتاہے۔ تعلیمی سرگرمیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہا۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے ہر علاقے سے ہر سال سینکڑوں بچے پڑھنے آتے ہیں۔

ایبٹ آباد اپنے پرفضا مقامات کی وجہ سے پورے پاکستان میں مشہور ہے۔ مشہور قراقرم ہائی وے ایبٹ آباد ضلع کے مقام ہری پور سے شروع ہوتی ہے۔ سر سبز مقامات سے گھرے ہونے کی وجہ سے گرمیوں میں بھی موسم خوشگوار ہوتا ہے۔ ہنزہ، گلگت، سکردو جانے کے لئے ایبٹ آباد ایک جنکشن کا کام دیتا ہے۔ اہم تفریحی مقامات میں ایوبیہ شامل ہے۔ یہ علاقہ چار چھوٹی پہاڑیوں پر مشتمل ہے اور سابق صدر پاکستان جناب ایوب خان کے نام پر اس علاقے کانام ایوبیہ رکھا گیا۔

یہ علاقہ 26 کلومیٹر پر مشتمل ہے اور علاقے کی سیر کے لئے چیر لفٹ ہے جس سے علاقے کا نظارہ کیاجا سکتا ہے۔ ٹھنڈیانی، جس کا مطلب مقامی زبان میں سرد ہے ایک اہم تفریحی مقام ہے۔ پائن درختوں کے جھنڈ میں یہ ایک سطح مرتفع پر مشتمل پرفضا مقام ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی 2700 میٹر ہے۔ ایبٹ آباد شہر سے اس کی دوری 31 کلومیٹر ہے اور ایبٹ آباد سے آسانی کے ساتھ وہاں پہنچا جا سکتا ہے۔ شام کے وقت ایبٹ آباد شہر کی روشنیاں وہاں سے صاف دکھائی دیتی ہیں۔ مشرق کی طرف دریائے کنہار کے پرے کشمیر کی برفیلی پہاڑیان نظر آتی ہیں۔ میرانجانی ضلع کا سب سے اونچا مقام ہے۔

یہ تو تعارف اس اصل بات پہ آتے ہیں جس کے لئے اتنی لمبی چوڑی تمہید باندھنی پڑی۔

شاہراہ ریشم جو کہ پاک چائنہ دوستی کی علامت ہے یہ ایبٹ آباد کے بالکل درمیان سے گزرتی ہے مگر آج تک اس پہ لاکھوں حادثات رونما ہو چکے ہیں ان پہ کراسنگ کا کوئی بھی نظام نہیں بنایا گیا۔ دنیا کے خوبصورت ترین جگہوں میں شمار ہونے والا شہر سیاست دانوں اور یہ کے رہنے والوں کی بے حسی کا شکار ہے۔

آج تک یہاں کی عوام نے اپنے حق کے مطالبات کے لئے کوئی پلیٹ فارم نہیں بنایا۔ یہاں انگریزوں کے دور کی ہر چیز موجود ہے اس وقت سے لے کر اب تک کوئی بھی بڑا منصوبہ نہیں بنایا گیا۔ قومی اسمبلی کی دو سیٹیں اور صوبائی اسمبلی کی چار سیٹ کو تھالی میں میں رکھ کر جنہیں پیش کی جاتی رہیں وہ ہمیں صرف خواب ہی دکھاتے رہے۔

ذرائع مواصلات، پانی، بجلی، تعلیم، صحت، صفائی ستھرائی کا نظام تباہی کے دہانے پرپہنچ گیا۔ نہ یہاں کی عوام کو خیال آ رہا ہے نہ سیاسی جماعتوں کو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان لوگوں کو صیحح لوگوں کو چننے کی توفیق دے جو اس جگہ اور لوگوں کے لئے درد دل رکھتے ہوئے ان کے لئے کام کر سکیں۔

سائرہ بانو
Latest posts by سائرہ بانو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).