طوائف اور انسانیت


طوائف ہمارے معاشرے میں دو تین پہلوؤں سے جانی جاتی ہے۔ طوائف کا اصل رول، اچھا گانا گانا، ناچنا اور اپنے جسم سے شتر بے مہاروں کے حیوانی جذبات کو تسکین پہنچاتی ہے۔ وہ رات بھر معاشرے کے منہ سر سانڈوں کو اپنے جذبات کی فصل کو بھر پور اجاڑنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں انسان کی حیوانیت کی کیفیت کو مکمل بدل کے انسانی شکل میں لانے والی شخصیت کو طوائف کہتے ہیں۔ وہ پوری رات حیوانوں کو انسان بنانے کی کوشش کرتی ہے اور صبح حیوانوں کی اجاڑی فصلوں اور زمینوں کو اچھے زمیندار کی طرح مکمل تیارکرتی ہے، تاکہ حیوان کسی کی کچی فصل کو تباہ برباد نہ کر دیں۔

اس کی رات انسانیت کی مکمل عبادت میں نظر آتی ہے۔ کوئی ذی روح فرض ادا کرنے کی اس قدر تیاری نہیں کرتا، جس قدر طوائف کرتی ہے۔ معاشرے کے بے شمار غیرت مند سانڈوں کو انسان میں تبدیل کرکے دوبارہ معاشرے میں بھیجتی ہے۔ ایسی خدمت سے خالق بھی خوش ہو گا۔ ورنہ تو اس سے نہ کوئی، زینب محفوظ نہ کوئی معصوم علی۔

دوسری کٹیگری میں ہم طوائف کسی بھی سر چڑھی عورت کو گالی کے طور پہ کہتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں کوئی بھی عورت جو خود فیصلے کرنا شروع کر دے۔ مضبوط ارادوں کی مالک ہو۔ ایسی زبان دراز ہو جو کسی رشتے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شٹ اپ کال دے دے۔ اگر ایسی بہن، بیٹی کو ہم قتل کرنا کافی حد تک لیگل سمجھتے ہیں۔ جیسکہ منٹو صاحب نے فرمایا تھا۔ ہمارے معاشرے نے مضبوط، آزاد عورت صرف طوائف کو دیکھا ہے، اس لیے ہر مضبوط عورت کو ہم طوائف سمجھتے ہیں۔ ایسی بے شمار باکردار، باہمت، اعلی اقدار والی معاشرتی طوائف قتل کی جاچکی ہیں۔

ملک پاکستان کے اندر ہم ہر مضبوط عورت کو گالی دینا عبادت کی حد تک ثواب سمجھتے ہیں۔ جیسے مرحومہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ۔ ہم نے فاطمہ جناح مرحومہ کے انتخابی نشان لالٹین کو کتیا کے گلے میں لٹکا کے پورے گوجرانوالہ میں گھما کے بے عزت کیا۔ ہم نے ملالہ کو یہودی ایجنٹ کہہ کے ذلیل کیا۔ ہم تو اپنی محسن مونث ہستیوں کو ذلیل کرتے ہیں۔ ہماری ذہنیت کالیول قومی اور بین الاقوامی سطح پر چیک کا آسان ترین حل یہ ہے، کہ آپ کبھی کسی مضبوط پاکستانی خاتون کے فالوورز کے کمنٹس کی تفصیل دیکھ لیں، تو معاشرے میں عورت کا مقام پتہ چل جائے گا۔

ہمارے معاشرے میں ہر مرد کو ایک عجیب سی بد گمانی ہمیشہ رہتی ہے، کہ دنیا کا واحد مرد میں ہوں، جو کچھ میرے پاس کسی اور کے پاس نہیں۔ کسی بھی عورت کو میں بڑے آرام سے قابو کر سکتا ہوں۔ پاکستانی معاشرے کے ہر مرد کو کسی بھی خوبصورت خاتون کے شوہر سے ایک خاص قسم کا حسد ہوتا ہے۔ یہ حسد اس کی موت کی خواہش کرنے تک کا ہونا ایک بہت معمولی بات ہے۔

سیپ لاکھوں بارش کے قطروں میں سے ایک قطرہ قبول کرتی ہے۔ باقی قطرے جوہڑ، نالے یاسمندر بن جاتے ہیں۔ کوئی ایک قطرہ جو سیپ کے معیار پہ اترے تواس کی کوکھ اسے ہیرہ بنا دیتی ہے۔ اسی طرح عورت کی کوکھ اربوں، کھر بوں سپرمز میں ایک سپرم کو قبول کرکے انسان جسم بناتی ہے۔ روح تو امر الہی ہے۔ میرے رب نے حوا کو یہ مقام دیا ہے کہ وہ رب کے مقرر کردہ خلیفہ جنتی ہے۔ جب ربِ کائنات نے انسان کوزمین و آسمان کا علم سکھا دیا، تب اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا سجدے کا (سورہ البقرہ) ۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ ہم اہل علم نہیں تو انسان کہلانے کے لائق بھی نہیں ہیں۔

پیشانی کے نشان سے زیادہ مزدور کے ہاتھوں کے چھالے زیادہ محترم ہیں۔ طوائف صرف اپنے بچوں کا پیٹ نہیں پال رہی ہوتی، وہ انسانیت کی مکمل عبادت کرتی ہے، انسانوں کی خدمت کرنے کی۔ ہم اگر اپنی محسن خواتین کی قدر نہیں کریں گے، تو یاد رکھیں ہماری بیٹیاں، بہنیں اسی طرح بد نگاہی کی ذلت اٹھائیں گی، کمزور عورت ہر طریقے سے استحصال کا شکار ہوتی ہے۔ عورت کو مضبوط کریں تا کہ وہ شوہر کے ساتھ ایک برابر کندھے سے کندھا ملا کے چل سکے۔

خود اعتمادی در حقیقت خود انحصاری ہے۔ ہمیں سوچ کو بدلنا ہو گا۔ ہمیں عورت کو خود انحصار کرنا ہو گا۔ خود انحصاری کے لوازمات عزت، اعتماد سب شامل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).