کشمیر، ہندوستان اور پاکستان پر ارندھتی رائے کی خصوصی تحریر


ملک کے وزیرِ اعظم کے ذریعے اس کی بہادر فضائیہ کو ایک خطرناک ڈرامائی مہم میں اترنے کو مجبور کرنا اس کی شدید توہین کی بات ہے۔ اور یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ جب ہمارے برصغیر میں نیوکلیر طاقت کا یہ غیرزمہ دارانہ کھیل کھیلا جا رہا ہے، اسی دوران عظیم ریاستہاے متحدہ امریکہ نے ان طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کر دیے ہیں، جن کو وہ سترہ برس کی براہِ راست جنگ کے بعد بھی ہرانے یا ہلانے میں ناکام رہا ہے۔

برصغیر میں یہ روز افزوں جدوجہد اتنی ہی مہلک ہے، جتنی کہ نظر آ رہی ہے۔ لیکن کیا یہ اتنی ہی سیدھی بھی ہے؟

تقریباً پانچ لاکھ کی تعداد ہندوستانی فوجیں کشمیر میں تعینات ہیں جس سے وہ دنیا میں سب سے بڑی فوجی طاقت کی موجودگی والا علاقہ بن گیا ہے۔ انٹیلجینس بیورو، آراے ڈبلیو، نیشنل انٹیلجینس ایجینسی، وردی پوش فوجیں — آرمی، بارڈر سیکیورٹی فورس، سینٹرل ریزرو پولیس فورس (اور ظاہر ہے جموں و کشمیر پولیس بھی)— سب الگ الگ جاسوسیاں کراتے ہیں۔ لوگ مخبروں، ڈبل ایجنٹوں، ٹرپل ایجنٹوں کی دہشت کی سائے میں جیتے ہیں، جو حقیقتاً سکول کے زمانے کے پرانے دوستوں سے لے کر اہلِ خانہ میں سے کوئی بھی ہو سکتے ہیں۔

 ان حالات میں اتنا بڑا حملہ جیسا کہ پلواما میں ہوا، خوفناک ہونے سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ جیسا کہ ٹویٹر پر کسی نے ایک پرمغر بات لکھی کہ یہ کیونکر ممکن ہوا کہ بھاجپا ”3 کلو بیف کا پتہ لگا سکتی ہے لیکن 350 کلو آر ڈی ایکس کا نہیں؟ “ (وہ شمالی ہند میں گؤ کشی کے الزام میں مسلمانوں کو پکڑنے اور پیٹ پیٹ کر مار ڈالنے کے روز افزوں مقبولِ عام ہندو رواج کی طرف اشارہ کر رہی تھی)۔

کسے خبر ہے؟

حملے کے بعد، جموں و کشمیر کے گورنر نے اسے ”انٹیلجینس کی ناکامی“ کا نتیجہ بتایا تھا۔ چند حوصلہ مند میڈیا پورٹلوں نے یہ حقیقت عیاں کی کہ جموں و کشمیر پولیس نے ممکنہ حملے کے بارے میں درحقیقت ارجینٹ الرٹ جاری کیا تھا۔ اب میڈیا میں کوئی اس کے لیے زیادہ فکرمند نظر نہیں آتا کہ آخر اس چیتاونی کو نظرانداز کیوں کر دیا گیا، اور کمان میں کہاں رخنہ پڑا۔

حملہ کتنا بھی افسوس ناک کیوں نہ ہو، نریندر مودی کے لیے یہ ایک شاندار سیاسی موقع تھا ایسا کچھ کرنے کا جس میں وہ ماہر ہے —شاندار نمائش۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں نے مہینوں پہلے پیش گوئی کرکے آگاہ کر دیا تھا کہ بھاجپا، جس کے پیروں سے سیاسی زمین کھسک رہی ہے، انتخابات سے ٹھیک پہلے آسمان سے آگ کا گولہ اتار لائے گی۔ ہم نے دہشت کے ساتھ دیکھا کہ ہماری پیش گوئی کتنی سچ ثابت ہوئی ہے۔ اور ہم نے دیکھا کہ مقتدر پارٹی کتنی مہارت سے پلواما ٹریجڈی کو اپنے معمولی، سیاسی مفادات کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

پلواما حملے کے فوراً بعد ہی مغضوب ہجوم نے ان کشمیریوں پر حملے شروع کر دیے جو ہندوستان کے مرکزی علاقوں میں کام کرتے یا پڑھتے ہے۔ مودی نے بالکل چپی سادھ لی اور صرف تبھی اپنا رد عمل ظاہر کیا جب سپریم کورٹ نے کہا کہ ان کی حفاظت کرنا حکومت کا فرض ہے۔ لیکن فضائی حملے کے بعد اس نے فی الفورٹی وی پر نمودار ہوکر کریڈٹ لے لیا، جو دنیا کو ایسا معلوم ہوا گویا اس نے خود ہی طیارہ اڑاکر بم برسائے ہوں۔ آناً فاناً میں ہندوستان کے کوئی چار سو 24 / 7 نیوز چینل، جن میں سے بیشتر پوری بے شرمی سے متعصب ہیں، اپنے نجی ”اِن پٹ“ کے ساتھ اس پرمظاہرے کو نشر کرنے والے بھونپو بن گئے۔

 پرانے ویڈیو اور جھوٹے حقائق پیش کرتے ہوئے ان کے چیختے چلاتے اینکر، گویا مورچے کے کمانڈو وہی ہوں، ایک جنونی، ظفرمند راشٹرواد کا تانڈو رچنے لگے، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ فضائی حملے میں جیشِ محمد کی ”ٹیرر فیکٹری“ کو نیست و نابود کر دیا گیا اور تین سو سے زیادہ ”آتنک وادی“ مار ڈالے گئے۔ اگلی صبح کے اخبار، سنجیدہ ترین قومی اخبار بھی، ایسی ہی مضحکہ خیز، شرمناک سرخیوں سے بھرے پڑے تھے۔ انڈین ایکسپریس نے لکھا: ”دہشت گردوں پر ہندوستان کا حملہ، پاکستان کے اندرگھس کر“۔

 اسی دوران رایٹرس (Reuters) نے، جس نے اپنا ایک صحافی پاکستان میں اس جگہ بھیجا تھا جہاں بمباری ہوئی تھی، خبر دی کہ صرف درختوں اور چٹانوں کو نقصان پہنچا ہے اور ایک دیہاتی زخمی ہوا ہے۔ ”ایسوسئیٹیڈ پریس نے بھی اسی قسم کی خبر دی۔ نیویارک ٹائمس نے لکھا، “ نئی دہلی میں تجزیہ کاروں اور سفارت کاروں نے بتایا کہ ہندوستانی فضائی حملے اپنے نشانے سے چوک گئے، کیونکہ سرحد کے قریب کام کرنے والے دہشت گرد گروہ پچھلے دنوں وہاں سے اس وقت ہٹ گئے ہوں گے جب ہندوستان کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کشمیر پر حملے کا جواب دینے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ ”

ہندوستان کی مین اسٹریم میڈیا نے رایٹرس کی رپورٹ کو کوئی جگہ نہیں دی۔ اس لئے، ہندوستان کی ووٹ ڈالنے والی بیشتر جنتا نے جو نیویارک ٹائمس نہیں پڑھتی، اس کے وزیرِ اعظم نے —اپنے مشہور 56 انچ کے سینے کے ساتھ— دہشت گردی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نابود کر ڈالا ہے۔

وقتی طور پر ہی سہی، لیکن ایسا محسوس ہوا کہ مودی نے اپنے سیاسی مخالفوں کو پوری طرح چت کر دیا ہے، جو ہندوستان کے بہادر پائلٹوں کی تعریف میں چہک رہے تھے۔ لیکن اس درمیان میں مودی اور اس کے آدمی انتخابی مہم پر نکل گئے۔ مشکوک اور بے اطمینانی ظاہر کرنے والوں کو ہندو ٹرول دہشت زدہ کر رہے تھے، ان پرغدار ہونے کے الزام لگائے جا رہے تھے، یا پھر وہ ایک آواز پر جمع ہوکر مارنے والی اس بھیڑ کے خوف میں مبتلا تھے جو شمالی ہند کے ہر گلی کوچے میں منڈلاتی پھرتی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3