کشمیر، ہندوستان اور پاکستان پر ارندھتی رائے کی خصوصی تحریر


مصنفہ اروندھتی رائے اس تحریر کی مترجمہ ارجمند آرا کے ہمراہ

لیکن چیزیں ایک ہی دن میں بدل بھی سکتی ہیں۔ جھوٹی جیت کی چمک اس وقت ماند پڑ گئی جب پاکستان نے جوابی حملہ کر دیا، ایک جنگی طیارہ مار گرایا اور ہندوستانی فضائیہ کے ایک پائلٹ، ونگ کمانڈر ابھینندن ورتھامان کو حراست میں لے لیا۔ ایک بار پھر، بھاجپا کے ڈانوا ڈول انتخابی امکانات واضح طور پر ذرا کم شاندار نظر آنے لگے۔

انتخابی سیاست کے کاروبار اور اس سوال کو درکنار کرتے ہوئے کہ آئندہ کے انتخابات کون جیتے گا، کہنا چاہیے کہ مودی کے کارنامے ناقابل معافی ہیں۔ اس نے ایک بلین سے زیادہ لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دی ہیں اور کشمیر کی جنگ کو عام ہندوستانیوں کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔ ٹیلیویژنوں پر پاگل پن، جو IV ڈرپ کی طرح، صبح شام اور رات دن رگوں میں اتارا جا رہا ہے، لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ وہ اپنے دکھ درد، اپنی بے روزگاری، اپنی بھوک، اپنے اجڑتے ہوئے چھوٹے موٹے کاروبار، اپنے ہی گھروں سے بے دخلکیے جانے کے منڈلاتے ہوئے خطرے، ججوں کی پراسرار موت، اور اُس موضوع پر انکوائری کے مطالبات کو بھول جائیں جو ہندوستان کی تاریخ میں سب سے بڑی اور سب سے کرپٹ ڈیل جیسا لگ رہا ہے، اور اپنی اس تشویش کو بھی چھوڑ دیں کہ اگر وہ مسلم، دلت یا عیسائی ہیں تو ان پر حملہ ہو سکتا ہے، یا وہ مارے جا سکتے ہیں — اور اس کے بجائے ”راشٹریہ گورو“ کے نام پر انہی لوگوں کو ووٹ دیں جو ان سب تباہیوں کے ذمہ دار ہیں۔

اس سرکار نے ہندستان کی روح کو گہرائی تک زخمی کیا ہے۔ زخم بھرنے میں برسوں لگیں گے۔ یہ عمل کم ازکم شروع تو ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ووٹ سے ان خطرناک، نمائش پسند ریاکاروں کو اقتدار سے نکال باہر کریں۔

ہم ایسے وزیرِ اعظم کا اقتدار میں آنا برداشت نہیں کرسکیں گے جس نے اپنی ایک ترنگ میں سو کروڑ کی آبادی والے ملک کی معیشت کی کمر توڑ دی ہو، کسی سے مشورہ کیے بغیر راتوں رات یہ اعلان کرکے کہ ملک کی 80 فی صد سے زیادہ کرنسی اب قانونی نہیں رہی۔ تاریخ میں اور کس نے ایسا کام کیا ہے؟ ہم نیوکلیر طاقت والے ملک میں ایک ایسا وزیرِ اعظم برداشت نہیں کر سکتے جو ایسے وقت میں جبکہ ملک پر ایک شدید مصیبت ٹوٹ پڑی ہے، نیشنل پارک میں اپنے اوپر بننے والی فلم کی شوٹنگ میں مصروف رہے، اور پھر اوچھے پن سے اعلان کرے کہ اس نے یہ کام ”سینا“ پر چھوڑ دیا ہے کہ آگے کیا کیا جائے۔ تاریخ میں جمہوری طریقے سے منتخبہ کون سے لیڈر نے کبھی ایسا کیا ہے؟

مودی کو جانا ہوگا۔ ایک جھگڑتی، منقسم، ڈانواڈول گٹھ بندھن سرکار جو اس کی جگہ لے سکتی ہے، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جمہوریت کا جوہر یہی تو ہے۔ وہ سرکار کہیں زیادہ سمجھ دار اور موجودہ سرکار سے بہت کم اجڈ ہوگی۔

اب معاملہ گرفتار ہونے والے ونگ کمانڈر کا ہے۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم، عمران خان کے بارے میں کسی کی رائے جو بھی ہو، اور کشمیر کے تنازعہ میں پاکستان کا جو بھی رول رہا ہو، لیکن اس نے اس ساری مصیبت کے دوران وقار اور بے تعصبی کا ثبوت دیا ہے۔ حکومتِ ہند کا یہ مطالبہ بالکل جائز تھا کہ ورتھامان کو وہ تمام حقوق فراہم ہوں جو ایک جنگی قیدی کو جینیوا کنوینشن نے تفویض کیے ہیں، اس کا یہ مطالبہ درست تھا کہ وہ جب تک پاکستان کی کسٹڈی میں رہے، ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کی اس تک رسائی ہو۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے یہ اعلان کیا کہ سدبھاونا، حسنِ نیت کی علامت کے طور پر، ونگ کمانڈر کو آزاد کر دیا جائے گا۔

شاید ہندوستان بھی کشمیر میں اپنے سیاسی قیدیوں کے ساتھ ایسی ہی سدبھاونا کا سلوک کر سکتا ہے : جینیوا کنویشن کے تحت ان کے حقوق کا تحفظ کر کے، اور ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی تک رسائی دے کر۔

ہم لوگ جس جنگ کے وسط میں ہیں، وہ ہندوستان اور پاکستان کی جنگ نہیں ہے۔ یہ ایسی جنگ ہے جو کشمیر میں لڑی جا رہی ہے، اور جو پھیل کر ایک ہند و پاک جنگ کا نقطۂ آغاز بن گئی ہے۔ کشمیر ایک ناقابلِ بیان تشدد اور اخلاقی زوال کا حقیقی تھئیٹر ہے جو ہمیں کسی بھی لمحے تشدد اور نیوکلیائی جنگ میں دھکیل سکتا ہے۔ اس کو واقع ہونے سے روکنے کے لیے کشمیر تنازعہ پر توجہ دینی ہوگی اور اسے حل کرنا ضروری ہوگا۔ ایسا تبھی ہو سکتا ہے جب کشمیریوں کو آزادی اور بے خوفی سے یہ بتانے کا موقع دیا جائے کہ وہ کس چیز کے لیے لڑ رہے ہیں اور فی الحقیقت کیا چاہتے ہیں۔

تو پیارے دھرتی واسیو! کوئی راہ تلاش کرو۔

(انگریزی سے ترجمہ: ارجمند آرا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3