جماعت اسلامی اور تحریک انصاف: ختم شد؟


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3b4\"

کشمیر میں مسلم لیگ ن نے اکتیس سیٹیں جیتی ہیں، پیپلز پارٹی اور مسلم کانفرنس نے تین تین سیٹیں جیتی ہیں۔ جموں کشمیر پیپلز پارٹی کو ایک ملی ہے، اور ایک آزاد امیدوار جیتا ہے۔ کشمیری سیاست کے ہیوی ویٹ بیرسٹر سلطان محمود کے تحریک انصاف میں شامل ہونے کے باوجود تحریک انصاف صرف دو سیٹیں جیت پائی ہے، جبکہ بیرسٹر صاحب خود اپنی مضبوط سیٹ بھی ہار گئے ہیں۔ کشمیر میں عام طور پر اس پارٹی کو زیادہ ووٹ ملتے ہیں جو کہ اسلام آباد میں برسر اقتدار پارٹی سے تعلق رکھتی ہو، لیکن اسے اتنے زیادہ ووٹ بھی نہیں ملتے ہیں کہ وہ تین چوتھائی سے بھی زیادہ اکثریت لے جائے۔

ہم عام طور پر کوئی تجزیہ کرتے ہوئے قطعی غیر جانبدار رہنے کی کوشش کرتے ہیں اس لیے عام پاکستانی رواج کے مطابق اس موضوع پر کچھ پڑھنے یا دیکھنے سے انکاری ہو کر محض اپنے دل کی آواز پر فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے جب ہمیں اڑتی اڑتی خبر ملی کہ بلاول بھٹو کشمیر میں بہت کمال کی تقریریں کر رہے ہیں جبکہ نواز شریف صاحب محض ترقیاتی منصوبوں وغیرہ کا ذکر کر رہے ہیں، تو محترم وصی بابا کے رائے مانگنے پر کہ کشمیر میں کون جیتے گا، ہم نے ایک لحظہ سوچے بغیر مکمل یقین سے بتا دیا کہ ویسے تو اسلام آباد کی پارٹی کو ووٹ ملتے ہیں لیکن اس مرتبہ پیپلز پارٹی جیت جائے گی۔

\"hqdefault\"

لیکن بدقسمتی سے حالات نے زبردست پلٹا کھایا۔ ہوا یوں کہ عمران خان نے کشمیر میں جا کر ’اوئے نواز شریف‘ کر دیا۔ اپنی طویل اور جوشیلی تقریروں میں خان صاحب نے کشمیر کے مقامی مسائل، اس کی داخلی خود مختاری کے ایشو، بجلی کے بحران، مقبوضہ کشمیر میں خونریزی اور بھارتی مظالم پر اپنی حالیہ اور مستقبل کی پالیسی، وغیرہ وغیرہ پر بات کرنے کی بجائے \’اوئے نواز شریف\’، \’اوئے زرداری\’ اور \’اوئے الطاف حسین\’ پر مکمل فوکس کیا۔ میاں نواز شریف کا اتنا زیادہ ذکر کیا کہ کشمیری سمجھے کہ خان صاحب بھی میاں صاحب کی تشہیری مہم چلا رہے ہیں اور یوں مسلم لیگ ن کشمیر میں ایک لینڈ سلائیڈ وکٹری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ تشہیر کا اصول ہوتا ہے کہ کسی چیز کو عوام میں مقبول بنانے کی خاطر تواتر سے اس کا ذکر کیا جائے تاکہ جب عوام کو سودا چاہیے ہو تو بے اختیار دماغ میں اسی چیز کا نام آئے۔

\"ik-suh-2b\"

ووٹروں نے نہ تو پاناما لیکس کی پروا کی، نہ دھاندلی کے الزامات سنے، نہ میاں صاحب کی بھارت سے دوستی کی خواہش کی پروا کی، بلکہ ان کے ترقیاتی کاموں کے نام پر ان کو ووٹ دے دیا۔ خان صاحب نے پہلے تو دھاندلی اور پنکچروں کا ذکر کر کر کے اور پھر بعد میں خود ہی اپنے پیہم دہرائے جانے والے پنکچروں کے بیانات کو سنی سنائی بات قرار دے کر ان سے پھر جانے پر، انتخابی دھاندلی اور انتخابی اصلاحات کو قوم کے لیے ایک غیر اہم مسئلہ بنا دیا تھا۔ پھر یہی کام کرپشن کے الزامات نے کیا۔ کرپشن کا اتنا ذکر کیا کہ لوگ اس بات کو بھی سنی ان سنی کرنے لگے بلکہ کرپشن کا لفظ سنتے ہی ہنستے نظر آنے لگے۔ کسی کو وہ کہانی یاد ہے جس میں ایک گڈریا شیر آیا شیر آیا کہتا تھا اور جب لوگ جمع ہوتے تھے تو کہتا تھے کہ تمہیں بے وقوف بنا دیا ہے۔ پھر ایک دن سچ مچ شیر آ گیا تو وہ گڈریا ہی بے وقوف ثابت ہوا۔ سب کو خبر ہووے کہ کشمیر میں شیر آ چکا ہے۔

تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ہے اور اب اس کا سارا زور وہی پل اور میٹرو بنانے پر ہے جسے بنانے کو وہ مسلم لیگ ن کا ایک بڑا جرم اور نا اہلی قرار دے کر اسے برا بھلا کہتی رہی ہے۔ پچھلے انتخابات میں تحریک انصاف کو ستر لاکھ سے زیادہ ووٹ پڑے تھے۔ لیکن اب عوام کا موڈ دیکھتے ہوئے یہی لگ رہا ہے کہ اس کو اگلے الیکشن میں سات لاکھ ووٹ بھی پڑ جائیں تو یہ ایک بڑی کامیابی ہو گی۔ عوام کا موڈ جاننے کو کشمیر ہی کافی ہے۔

\"IK-JI-Kashmir\"

دوسری طرف اس کی حکومتی اتحادی جماعت اسلامی ہے، جو کہ مسلم لیگ ن کے خلاف ملک گیر کرپشن کی مہم چلاتے چلاتے اچانک ایک دن اعلان کر بیٹھی کہ کشمیر میں وہ مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر کرپشن مٹائے گی۔ کرپشن کی برائی کو ختم کرنے کا یہ طریقہ دیکھ کر وہ مشہور عالم کارٹون یاد آ گیا ہے جس میں ایک شخص فرماتا ہے کہ سگریٹ ایک بڑی برائی ہے، اسے ختم کرتے ہیں، ایک ڈبی تم ختم کرو، ایک ڈبی میں ختم کرتا ہوں۔

کشمیر میں جماعت اسلامی کے ہر سیٹ سے ہار جانے کی عظیم کارکردگی دیکھتے ہوئے برادرم آصف محمود نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جماعت اسلامی اپنی طبعی عمر پوری کر چکی ہے۔ اس پر یہ خیال آیا کہ یہ تو منصورہ کی بلدیاتی نشست پر ہی دکھائی دے گیا تھا۔ اگر جماعت اسلامی کو اس کے مرکز منصورے میں بھی ووٹ نہیں پڑتے ہیں تو یہ خاتمہ نہیں تو اور ہے۔ دل میں خیال آیا کہ جماعت اسلامی کو اب اپنا آفیشل ترانہ اس غزل کو بنا دینا چاہیے

بجھی ہوئی شمع کا دھواں ہوں اور اپنے ’مرقد‘ کو جا رہا ہوں
کہ دل کی ہستی تو مٹ چکی ہے اب اپنی ہستی مٹا رہا ہوں

جماعت اسلامی کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے صالحین کارکن لیول سے لے کر امیر کے لیول تک اپنے تئیں عقل کل ہیں۔ اگر وہ الیکشن ہار جاتے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی ہے کہ وہ عوام کی امنگوں پر پورا نہیں اترتے یا عوام انہیں برا جانتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف امریکی سازش اور عوام کا غبی پن ہوتا ہے۔ لیکن امیر الصالحین کو کچھ کچھ شبہ ہونے لگا ہے کہ مسئلہ کچھ اور ہے۔ گزشتہ سال منصورہ میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے امیر الصالحین نے صالحین کی شان میں قصیدہ کہا۔

صالحین کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے مخاطب ہو کر انہوں نے فرمایا کہ ’سست اور کاہل کارکنوں کے ساتھ انتخاب نہیں جیتا سکتا۔ کارکن فخر سے بتاتے ہیں پچاس سال سے جماعت کا رکن ہوں مگر گھر والوں کو جماعت کا حامی بھی نہیں بنا سکا۔ جن کے پاس سائیکل تھی وہ اب لینڈ کروزر پر گھومتے ہیں۔ جس کا ایک اسکول تھا اب پانچ اسکولوں کا مالک ہے، مارکیٹوں کے مالک بن گئے ہیں۔ کئی کئی بنگلوں کے مالک ہیں۔ عوامی خدمت کے بجائے پراپرٹی بنانے کا مقابلہ ہے۔ عوام سے رابطہ نہیں ہے، پھر الیکشن ہار کر کہتے ہیں کہ امریکہ کی وجہ سے الیکشن ہار گئے‘۔

جماعت اسلامی اگر سیاسی جماعت کے طور پر زندہ رہنے میں دلچسپی رکھتی ہے تو اسے چند امور پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا ورنہ پھر جماعت اسلامی کی سیاست کی فاتحہ کے پلاؤ پر ہی سابقہ صالحین سے ملاقات ہو گی۔

\"Siraj-Ul-Haq-Strange-Statement\"پہلا مشورہ یہ ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ سے پیچھا چھڑا لیں۔ اس کے نوجوان مجاہدین کا قول و فعل دیکھ کر عام لوگ کالج میں ہی جماعت اسلامی کے متعلق ذہن بنا لیتے ہیں اور الیکشن کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اس جماعت سے بہت دور پہنچ جاتے ہیں۔

دوسرا یہ کہ اپنی شکست کو امریکی سازش سمجھنے کی بجائے، ووٹر کے جماعت کو ناپسند کرنے کی وجہ جماعت کی شوری اور کارکنان سے پوچھنے کی بجائے ووٹر سے ہی پوچھیں اور جو برا بھلا سنیں اس پر ٹھنڈے دل سے غور کریں۔ اگر ووٹر کی ڈیمانڈ کے مطابق خود کو بدلنا ممکن ہے تو بسم اللہ ورنہ سیاست سے نکل جائیں اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی پر توجہ مرکوز کریں۔

سوشل میڈیا پر اپنے مخالفین کے پیچھے گروہ کی شکل میں پنجے جھاڑ کر مت پڑا کریں۔ دیکھنے والوں کو وہ منظر یاد آ جاتا ہے جب کسی کوے کو کوئی شکاری مارتا ہے۔ عام لوگ کووں کو اچھا نہیں سمجھتے ہیں۔

برما، مصر، شام وغیرہ پر اتنا وقت صرف کرنے کی بجائے پاکستان واپس آ جائیں اور اپنے مقامی حلقوں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ کریں اور اپنے بینروں کو زحمت نہ دیں تاکہ لوگ اسے خدمت ہی سمجھیں، تشہیری مہم نہیں۔

ورنہ پھر یہ لگ رہا ہے کہ اللہ جماعت کو اتنا عروج دے دے گا کہ گزشتہ بلدیاتی انتخابات کے برخلاف اگلے بلدیاتی انتخابات میں اس کو منصورے سے شکست نہیں ہو گی کیونکہ اس کو اس نشست سے کھڑا کرنے کے لیے امیدوار ہی نہیں ملے گا جو کہ الیکشن لڑے۔ گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں بھی تو جماعتی اکابرین کے ولی عہدوں نے ن لیگ اور تحریک انصاف کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنا بہتر سمجھا تھا۔

\"munawar-hassan-2\"جماعت کی یہ پالیسی رہی ہے کہ جس طرف عوامی امنگوں کا رخ ہو، اس کے خلاف چلتے ہیں۔ خاص طور پر ہر سال چھے مہینے بعد امیر الصالحین کچھ ایسا بیان داغ دیتے ہیں کہ اگلا ایسا بیان آنے تک پوری جماعت سارا کام دھندا چھوڑ کر اس کا دفاع کرنے اور اس کا ذکر کرنے والوں کو امریکی ایجنٹ قرار دینے میں مصروف رہتی ہے۔ ملالہ پر قاتلانہ حملہ ہو یا آرمی پبلک سکول کا معاملہ، یا جب تحریک طالبان پاکستان کو شہید اور پاکستانی فوجیوں کو امریکی فوجیوں کے حکم میں کہا جائے، یعنی ان کو ’کفار‘ قرار دیا جائے، تو صالحین کو جو عوامی مقبولیت مل سکتی ہے، الیکشن ڈے پر وہی نصیب ہوتی ہے۔

\"munawar-hassan-1\"

لیکن صالحین کب کسی کی سنتے ہیں۔ وہ تو عقل کل ہیں۔ ویسے بھی ان کی مقبولیت تو بے پناہ ہے۔ یقین نہیں آتا تو ووٹر مت گنیں۔ یہ سوچیں کہ فیس بک پر ان کے پیج کو تقریباً تیس لاکھ افراد نے لائک کیا ہوا ہے۔ یہ محض اتفاق ہے، بلکہ امریکی سازش ہے، کہ گزشتہ قومی انتخابات میں اس کو تیس لاکھ کی بجائے کل ملا کر نو لاکھ ووٹ ہی نصیب ہوئے تھے۔ تحریک انصاف کے پینتالیس لاکھ فیس بک لائک سے یہ مقبولیت معمولی سی ہی کم ہے۔ صالحین ان الیکشن ریزلٹس پر خود کو دانشمند اور قوم کو بدھو یا بھوندو قرار دینے کی بجائے کسی غیر جانبدار شخص سے دریافت کر لیں کہ یہ لیبل کس پر لگایا جانا چاہیے۔

تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کچھ غور و فکر کر لیں، ورنہ پھر اگلے الیکشن میں یہی کہنا پڑے گا کہ کھیل ختم پیسہ ہضم۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف، ختم شد!

چلیں ہماری سطحی باتیں چھوڑیں، ایک عالم بے بدل کو یاد کرتے ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی جماعت کے اولین اکابر میں سے ایک تھے۔ ان کا علمی و جماعتی رتبہ مولانا مودودی سے کم نہیں سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے ایک مرتبہ جماعت اسلامی کی حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’مذہبی لوگ ہمیں بہروپیا سمجھتے ہیں اور سیاست دان چغد‘۔ یاد رہے کہ چغد کنگ سائز الو کو کہا جاتا ہے۔

پھر وہ جماعت اسلامی کو چھوڑ گئے۔ کسی نے ان سے پوچھا ’مولانا، آپ نے اپنی زندگی کا ایک طویل حصہ جماعت کے ساتھ گزارا آپ کو اس میں کون سی بات سب زیادہ اچھی لگی؟‘ مولانا نے کہا ’سب سے اچھی بات یہ کہ جماعت انسان کو عقل سکھاتی ہے اور جب اسے عقل آجاتی ہے تو وہ جماعت چھوڑ دیتا ہے‘۔

کہیں یہ ووٹر عقل تو نہیں سیکھ چکے ہیں؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments