شاید یہیں سے ہماری واپسی ہو


زیرِ دست آئے دشمن پائلٹ ابھی نندن کو چھوڑدیا گیا۔ یہ فیصلہ کیسا ہے یہ تو ماہر ین زیادہ بہتر جانتے ہیں، وہی ماہرجو ملک کے چیف ایگزیکیٹیو ہیں اور بھارت کو امن کی پیش کش کررہے ہیں، وہی ماہرین جنھوں نے پہلی رات صبر کیا اور طیارے واپس جانے دیے اور اگلی بار آنے پر مار گرائے، وہی ماہرین ِخارجہ جو اقوامِ عالم میں ہماری نمائیندگی کرتے ہیں۔ کوئی دو رائے نہیں کہ قابو کیے دشمن کو چھوڑنے سے پاکستان نے عزت اور بڑی کامیابی حاصِل کی ہے۔

روایتی صحافتی جملہ استمعال کرتے ہوئے قارئین کی خدمت میں عرض ہے کہ پاکستان کے تما م اسٹیک ہولڈرز ایک پیج پہ ہیں اور اُس پیچ پہ پاکستان سمیت خطے کی ترقی اور استحکام کا مضمون درج ہے۔ خیر سگالی کا یہ عمل کرکے جو ملکی، سیاسی، عسکری، سفارتی اور ہمسائیگی کامیابیاں ہم نے سمیٹی ہیں اُن پہ بہت لکھ جارہا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔ دنیا جان گئی ہے کہ وہ ملک جو ستر کی دہائی سے کبھی افغانستان کی جنگ سے متاثر ہوا اور نائن الیون کے بعد خود لگ بھگ پندرہ سال اپنی سرزمین پہ دہشتگردی کا شکار ہے رہا ہے، وہ پاکستان تو امن کا سفیر ہے، وہ صرف اپنا نہیں سوچتا بلکہ وہ تو خطے کے تحفظ کے لئے کوشاں ہے۔

بیرونی فتوحات کے ساتھ ساتھ ہم نے شاید اپنی ایک اندرونی سماجی روایت سے بھی رجوع کیا ہے۔ وہی روایت جو ہمارے بڑوں کے نکاح میں رہی ہے اور موجودہ نسل نے اُسے طلاق دے دی تھی، لیکن شاید اب رجوع کا آپشن بھی زیرِ غور ہے۔ وہ روایت ہے معاف کرنے کی روایت۔ ہم اپنے سماجی رویوں میں فرعون بنتے جارہے تھے، معاف کرنا بھول گئے تھے اوردرگزر سے واسطہ ختم کر چکے تھے کہ حکمرانِ وقت نے ہمیں ایک پُرانی سوچ یاد دلائی ہے۔

ہوتا بھی یہ ہی ہے کہ جو کام کوئی بڑا انجام دیتا ہے تو دیکھادیکھی چھوٹے بھی کرنے لگتے ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں میں ہم نے دیکھا کہ کسی محلے، گلی یا بازار میں کوئی لاغر و مجبور چور عوام نے پکڑا ہوتا اور دھلائی کیا کرتے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم نے کہاں دیکھا؟ تو جواب یہ ہے کسی نیوز چینل پہ۔ ذرا ذہن پہ زور ڈالیں تو آواز آئے گی کہ نیوز اینکر کہہ رہا ہے، آج فلاں علاقے میں اہلِ علاقہ نے ایک چور پکڑا اور اُسکی خوب درگت بنائی، ساتھ ہی ثبوت کے طور پہ ویڈیو بھی دکھائی جاتی ہے۔

ویڈیو میں ہاتھ باندھے چور کھڑا ہے اور کیمرہ ریکارڈ پہ جاتے ہی چند لوگ اُس پہ تمانچوں کی بارش کردیتے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ کسی مذہب معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا۔ چوری کی سزا ریاست کے مذہب اور ریاست کے قانون نے واضح کی ہے، اُس میں کہیں بھی چور کی تذلیل یا ہجوم کے مشتعل ہونے کی گنجائش نہیں۔ یقینا یہاں یہ سب چور یا چوری کی حمایت میں نہیں لکھا جارہا، صرف انسان کی اہانت کی جانب توجہ دلائی جارہی ہے۔ اگر آپ ابھی تک اُس مجبور کی بے بسی محسوس نہیں کر پائے تو فرض کی کیجئے کہ آپ کسی مصروف بازار میں گاڑی چلاتے جارہے ہیں، گاڑی سامنے سے آتے سوار سے ٹکراگئی۔

اتنے میں وہ صاحب غصے میں اُترے اور آپ کو گربیان سے پکڑ کر گاڑی سے نکال لیا، اُنکے ساتھ کچھ راہگیر بھی شامل ہوگئے۔ آپ ابھی وضاحت دینا ہی چاہتے تھے کہ اُن صاحب نے ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کردیا، آپ ابھی سنبھلے ہی نہ تھے کہ ایک اور، اور پھر شاید دیگر ہاتھ بھی شامل ہوگئے۔ امید ہے اب وہ بے بسی اور ذلت محسوس ہوئی ہو جو کہ اوپر چوری کے ملزم کے لئے بیان کی گئی ہے۔ یقینا چوری کرنایا گاڑی کا ٹکراجانا ایک جرم ہے، اور جرم کی سزا یہاں یا وہاں مل ہی جائے گی۔

لیکن اُس ملزم یا مجرم کی تذلیل تو اضافی عمل ہوگیا، تو یقینا اس اضافت کی سزا یا جزا بھی ہوگی۔ بات کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اخلاقی حدود و قیود اپنانا ہوں گی تاکہ بلند ہوجائیں۔ غور کریں کہ کہاں یہ ٹکے دو ٹکے کی چوری کرنے والا چور اور کہاں وہ دشمن ملک کا پائلٹ جو جنگی جہاز پہ سوار ہمیں تباہ کرنے کی خواہش لئے ہماری سرحد میں گھس آیا، دونوں کو معاف کرنے میں کتنا مختلف ظرف درکار ہوگا؟ ذرا سوچیں۔

میر ا ایک دوست صرف اس لئے لوگوں سے نہیں لڑتا تھا کہ کہیں اضافت نہ ہوجائے، دو ایک بار تو سامنے والے نے ایک آدھ لگا بھی دی، میں نے بیچ بچاؤ کروایا اور اپنے دوست کو ڈانٹا کہ یار وہ تجھے تھپڑ مار گیا اور توں نے جواب نہیں دیا۔ کہنے لگا یار زیدی اُسکی بدسلوکی میں سہہ گیا ہوں، لیکن جواباً میرا ہاتھ زیادہ سخت پڑ جاتا تو میں مظلوم کے بجائے ظالم بن جاتا، اور مجھے مظلوم ہی رہنا ہے۔ میں اُسکی منطق کے سامنے کچھ زیادہ نہ بول سکا لیکن ایک بات ذہن نشین کرلی کہ کہ ہمارے بڑے بدلہ لینے کی جگہ معاف کرنے کو ترجیح دیتے تھے، رسولِ اکرم کے در گزر کرنے لاتعداد واقعات تاریخ سے ملتے ہیں اور حضرت علی ؑ کا وہ قول یاد آیا کہ دشمن کو قابو کرنے کے بعد، شکرانے کے طور پر اُسے معاف کردو۔ یقینا دسترس رکھتے ہوئے معاف کردینا بڑی نیکی ہے۔ آج ہمارے حکمرانوں نے ایک عمدہ اور مدبرانہ روایت کا احیاءکیا ہے اور عوام پہ برسوں سے بند سوچ کا در کھول دیا ہے، اب ہمیں سوچنا ہوگا، اپنے اردگرد جینے والوں کی کوتاہیوں اور غلطیوں کو نظر انداز کرکے، معافی اور درگزر کواپناتے ہوئے، اپنا اخلاق بلند کرنا ہوگا۔ شاید! یہیں سے ہماری واپسی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).