یکم مارچ 2019 کو مرنے والے کشمیری کا عالم ارواح سے خط


اے خداوندان آئین و سیاست

نمشکار، سلام

یکم مارچ دو ہزار انیس کی یخ بستہ رات میں اپنے دو بیٹوں، ایک بیٹی اور وفا شعار بیوی کے ساتھ اپنے گھر میں آگ کا الاؤ جلائے بیٹھا تھا۔

مگر ٹھہریے پہلے ذرا سا اپنا تعارف کرا دوں۔

میری بدقسمتی یا خوش قسمتی کہ میں ایک ایسی وادی میں پیدا ہوا جسے لوگ جنت ارضی اور سورگ کہتے ہیں۔ میرے جیسے سادہ لوح اور جاہل انسان کو کبھی سمجھ نہیں آئی کہ ایسا لوگ کیوں کہتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ جنت اور سورگ کے حصول کے لیے مرنا لازمی ہوتا ہے۔ وہ ایک محاورہ بھی تو آپ لوگ اکثر بولتے ہیں کہ اپنے مرے بغیر جنت نہیں ملتی۔ مگر اس وادی کو لوگ کیوں جنت کہتے ہیں یہ پھر بھی سمجھ نہیں آتا۔ اس وادی میں رہنے والوں کے سروں پہ موت ہمیشہ منڈلاتی رہتی ہے۔

میرا خیال ہے اس محاورے کو کچھ یوں ہونا چاہیے کہ مرنے کا شوق ہو تو جنت میں جانا چا ہیئے۔ اور پھر جہاں میں پیدا ہوا، پلا بڑھا، جوان ہوا یہ گاؤں تو ایک خونی لکیر کے بالکل پاس سورگ کے دعویداروں کی طرف ہے۔ ایک ایسی خونی لکیر جس کے ایک طرف کھڑی مسلح فوج کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اس سورگ کی رکھشک ہے جبکہ دوسری طرف کھڑی فوج کا دعویٰ ہے کہ یہ وادی اصل میں سورگ نہیں جنت ہے اور وہ اس جنت کو آزاد کرانا چاہتی ہے۔

ایک اسے اپنی شہ رگ کہتا ہے اور دوسرا اٹوٹ انگ۔ اس سورگ اور جنت، شہ رگ اور اٹوٹ انگ کے جھگڑے میں روز ہی دونوں طرف سے گولہ باری ہوتی رہتی ہے۔ اور اس گولہ باری میں ہم لاشیں اٹھاتے رہتے ہیں۔ کیوں کہ گرنے والے گولے کبھی مذہب، ذات، قوم، قبیلہ اور وفاداری کے بارے میں نہیں پوچھتے۔ اور نہ یہ پوچھتے ہیں کہ کوئی یونیفارم پہنے دشمن کا فوجی ہے یا کوئی عام شہری کہ جسے پتا ہی نہیں کہ جنت اور سورگ میں کیا فرق ہے اور یہ سارا جگھڑا کس کا ہے اور کیونکر ہے۔ گولے تو کیا پوچھیں گے؟ شہ رگ اور اٹوٹ انگ کہنے والے پاکستان اور ہندوستان کی تقدیر کے خداؤ آپ نے بھی ہمارے دل کی دھڑکن سننے کی کوشش نہیں کی۔ آپ بھی ہماری بات سننے کو تیار نہیں کہ آخر ہم کیا چاہتے ہیں۔

بہرحال ہم کیا چاہتے ہیں یہ بھی میں آپ کو بتا دوں گا مگر ابھی آپ اس رات کی کہانی سن لیجیے۔ تو میں یکم مارچ کی اس یخ بستہ رات کا ذکر کر رہا تھا۔ میرے سہمے ہوئے بچے میری گود میں گھس کر بیٹھے تھے اور باہر وقفے وقفے سے دھماکوں کی آوازیں آ رہی تھی۔ ہم گزشتہ کئی دنوں سے سوئے نہیں تھے۔ کیوں کہ گزشتہ کئی دنوں سے سورگ کے رکھشکوں اور جنت کے طلب گاروں کے درمیان کشیدگی بڑھی ہوئی تھی۔ اور دونوں طرف سے جارحانہ گولہ باری کا سلسلہ جاری تھا۔

میری بیوی بے معنی نظروں سے کبھی ہماری طرف دیکھتی اور کبھی کچے فرش پہ ٹیڑھی میڑھی لکیریں کھینچنے لگ جاتی۔ اس گہرے اور طویل سکوت کو میری بیٹی نے توڑا۔ ”ابا جی! ہم یہاں سے کہیں دور کیوں نہیں چلے جاتے؟ “۔ میں نے اس کی پیشانی چوم لی۔ میرا دل کٹ رہا تھا۔ میں کچھ نہ کہہ سکا۔ میرا بچپن اور لڑکپن اس گاؤں میں گزرے تھے۔ اس کے درختوں کی چھاؤں میں، میں نے محبتوں کے خواب دیکھے تھے۔ اس کی ہواؤں کی لہروں پہ میری بانسری کے سروں نے رقص کیا تھا۔

اس کے جنگلی پھولوں کی خوشبو میری سانسوں کو راحت بخشتی تھی۔ اس کی مٹی میرے ہونے کی گواہی دیتی تھی۔ اس کے لوگ میرے آنسوؤں کے لیے اپنے کندھے پیش کرتے تھے۔ اس کی پگڈنڈیوں پر میرے اباجی کے نقش پا ثبت تھے۔ اس گھر کی دیواروں میں میری اماں کی قربت کا شفقت بھرا احساس تھا۔ میں یہ سب کچھ چھوڑ کر کیسے جا سکتا تھا۔ میں چپ رہا۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ اور ارشاد بھائی کی آواز آئی: ”عبداللہ بھائی، عبداللہ بھائی“۔

میں نے کہا خدا خیر کرے اور جلدی سے دروازہ کی طرف بھاگا۔ میں نے جیسے ہی دروازہ کھولا تو سامنے ارشاد بھائی آنکھوں میں آنسو لیے کھڑے تھے۔ ”ہمیں صبح سے پہلے یہ گاؤں خالی۔۔۔ “ وہ اپنی بات مکمل نہ کر سکے۔ دروازے سے چھن کے باہر آتی روشنی نہ اپنا عقیدہ بتا سکتی تھی اور نہ یہ کہ وہ ایک غریب غیر مسلح دیہاتی کے گھر کے دیے کی روشنی ہے۔ ایک دھماکہ ہوا اور سب اندھیرا ہو گیا۔ میرے لیے گاؤں چھوڑنا مشکل ہو رہا تھا، آپ نے دنیا سے اٹھوا دیا۔

میں اس وقت عالِم ارواح میں اپنے جیسی ہزاروں بے چین روحوں کے درمیان بھٹک رہا ہوں۔ ہمارے سینے کا درد نہ ہماری مکتی ہونے دے رہا ہے نہ ہمیں اس برزخ سے آزاد ہونے دے رہا ہے۔ ہماری رات دن کی صداؤں سے آسمان دہل رہا ہے۔ مگر تمہیں کوئی آواز سنائی نھیں دے رہی۔ سنائی دے بھی کیسے کہ تمھاری جنت و سورگ کی حرص نے تمہارے کان بند کر رکھے ہیں، تمہاری آنکھوں پر تمہاری انّا کی پٹیاں بندھی ہیں۔ اپنے حصار ذات کے باہر تمہیں کچھ دکھائی نہیں دیکھ رہا۔

کبھی فتح کے ترانے بجانے اور ہار کے سوگ منانے سے فرصت ملے تو میرے گاؤں ضرور جانا اور میری آٹھ سال کی بیٹی سے ایک بار پوچھ لینا تمہارے جنت اور سورگ کے چکر میں اس کی جنت کہاں کھو گئی۔ ایک بار اس سے ملو تو تمہیں ضرور بتائے گی اس جنت اس سورگ کی مٹی پہ کچھ انسان بھی بستے ہیں۔ ان انسانوں سے ان کی جنت مت چھینو۔ انہیں نہ تمہارے کھوکھلے آزادی کے نعروں سے مطلب ہے اور نہ وہ کسی کی شہ رگ یا اٹوٹ انگ بننا چاہتے ہیں۔ انہیں ان کی زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں چننے دو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).