بھارتی میزائل پلان ایک اور عادل ڈار کے انتظار میں


1971 کے بعد پہلی دفعہ بھارتی فضائیہ نے پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہو کر کارروائی کرنے کی کوشش کی۔ یہ جملہ سنتے ہی سنسنی جنم لیتی ہے۔ پھر اس کارروائی پر مشتعل لوگ ایک سرپرائز کارروائی کی نوید بارے ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں سنتے ہیں۔

اگلی صبح دس بجے ایک ایٹمی طاقت دوسری ایٹمی طاقت کے دو جہاز گراتی ہے ایک پائلٹ کو زخمی حالت میں گرفتار کرتی ہے اور پھر چائے کے کپ پر گپ شپ چلتی ہے۔ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان باقاعدہ جنگ چھڑنے میں چند لمحوں کی دیری ہے۔ وزیر اعظم عمران خان پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں انٹیلیجنس رپورٹ پر انڈیا کے پاکستان پر میزائل داغے جانے کے پلان بارے آگاہ کرتے ہیں۔ یہ وہ پلان تھا جس کو شاید انٹرنیشنل پریشر اور ممکنہ ایٹمی ردعمل پر عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔

مگر یہ میزائل داغے جانے کی نوبت آئی کیوں۔ ؟

14 فروری کے روز جب پوری دنیا سمیت بھارت اور پاکستان کے لوگ ویلنٹائن ڈے منانے کی جدو جہد میں مصروف تھے تب عادل ڈار نامی کشمیری نوجوان نے پہلی دفعہ جموں کے علاقے پلوامہ میں بارود سے بھری گاڑی نیم فوجی دستوں کے کانوائے سے ٹکرا کر چالیس سے زائد بھارتی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔

عادل ڈار کے والد غلام ڈار کے حوالے سے نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ بارویں کلاس کے امتحانات کے بعد وہ ایک کارخانے میں کام کر کہ گھر کے اخراجات کو سہارا دے رہا تھا۔

مگر یہ 2016 کا ایک دن تھا جب عادل ڈار جب ایک نیم کرفیو والے روز بھارتی فوجیوں نے عادل ڈار کو زمین پر گرا کر اس کی ناک رگڑی اور تلاشی لی۔

شاید یہی وہ لمحہ تھا جب پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ دنوں کی کشیدگی کی داغ بیل رکھ دی گئی تھی۔ کیونکہ اس کے کچھ عرصہ بعد عادل نے مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے لیے سرگرم عسکری گروپ کو جوائن کر لیا۔

توجہ طلب بات تو یہ ہے کہ کشمیر ہزاروں نوجوانوں سے غیر انسانی اور تذلیل کئیے جانے کا رویہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ تو جس طرح سپرنگ کو جتنا دبایا جائے اتنا اچھلتا ہے کہ مصادق ردعمل بھی اتنا ہی سنگین ہو گا۔

یہ کارروائی تو خیر آرمی دستے کے خلاف کشمیر میں ہوئی مگر اگر یہ کارروائی بھارت کے کسی بڑے شہر کی بارونق جگہ پر عام شہریوں کے ساتھ ہو جائے تو شاید پھر میزائل حملے کے پلان کو جنگی جنون میں مبتلا بھارتی حکومت عملی جامہ پہنا دے۔ جس کی انتہا کے بارے میں جاننے والے پہلے ہی۔ say no to war کا نعرہ لگا رہے ہیں۔

اس لیے بھارت کو کشمیری عوام کی تذلیل اپنی اور عوام کی بقا کے لیے روکنی ہو گی ورنہ جنوبی ایشیا شاید اگلے کسی عادل ڈار کے خودکش حملے کی تباہی جھیل رہی ہو گی۔ مودی چاہے اس سارے معاملے کو ایک الیکشن مہم کی طرح چلانا چاہ رہا تھا مگر پاکستانی سرپرائز اور پھر ابھینندن کی فوری رہائی ایک بار پھر سے الیکشن مہم کو ڈگمگا چکی ہے۔

بھارت کے سرمایہ دار طبقے نے اس دن اپنی اربوں کی سرمایہ کاری سٹاک ایکسچینج میں ڈوبنے کے خطرے کو محسوس کیا۔

بلکے عالمی سطح پر مضبوط اکانومی والی سٹاک مارکیٹوں میں بھی اتھل پتھل دیکھنے میں آئی۔ جس پر بہت سے عالمی رہنماؤں کو اپنے سپانسر سرمایہ کاروں کی دولت کو بچانے کے لیے میدان میں آنا پڑا۔

دوسری طرف او آئی سی میں بھارت کی شرکت اور پاکستان کے بائیکاٹ نے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات اور خارجہ پالیسی پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ گو کہ اعلامیے میں بھارت کا نام لے کر جو قرارداد منظور ہوئی ہے اس کر بھارت کو وقتی طور پر ہزیمت کا سامنا ہے۔

مودی حکومت اس سارے پریشر کا شکار ہو کر بھی کوئی کارروائی کر سکتی ہے کیونکہ لائن آف کنٹرول پر مسلسل گولہ باری بھی جاری ہے۔ مگر جنوبی ایشیا اب کسی میزائل پلان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بدلتی دنیا کے ساتھ بھارت کو بھی اپنا ظالمانہ چہرہ ختم کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).