باچاخان پر اعتراضات اور ان کے جوابات


باچاخان صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا اہ) سے تعلق رکھنے والے تحریک آزادی کے نامور مجاھد تھے۔ جنہوں نے عدم تشدد کو اپنا اسلحہ بناکہ برطانوی سامرج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی۔ باچاخان پر کچھ اعتراضات ہیں جن کی میں جواب دینے کی کوشش کروں گا۔

باچاخان پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ سیکولر نظریات کے حامل تھے جن کو اسلامی روایات کے خلاف گردانا جاتا ہے۔ سیکولر نظریات کے بارے میں ترقی پسند لوگوں کی رائے ہیں کہ جو لوگ قوم کی ترقی کے لئے کام کریں گے وہ لوگ دین سے بے زار ہوں گے جبکہ دینی جماعت کے لوگ سیکولرزم کو لادینیت اور دھریت (ایتھیزم) سے جوڑتے ہیں۔ یہ دونوں انتہإپسندانہ سوچ کے لوگ سیکولرزم کو مذہب کے برعکس گردانتے ہیں۔ جبکہ جیکب ہولیک جنہوں نے سیکولرزم کی اصلاح متعارف کی ہے نے اس لفظ کو مذہب کے خلاف تردیدوتنقید کے لئے استعمال نہیں کیا، نہ ہی کوئی الگ مذہب لے کر آئے ہیں اور نہ ہی کسی مذہب کے سچائی پہ سوال اٹھاتے ہیں۔ جیکب ہولیک کے نزدیک سیکولرزم انسانی سوچ کی آزادی ہے۔

باچاخان بھی جیکب ہولیک کی طرح انسانی سوچ کی آزادی کے حامی ہے۔ باچاخان کے مطابق انسانوں کے رشتوں اور سوچ میں مذہب نہیں آنا چاھیئے اور خود بھی بلا کسی تفریق کے انسانیت کی خدمت کی۔ باچاخان کے نزدیک علم کی ترقی کے لئے سیکولر معاشرے کا ہونا ضروری ہے۔ اسی سیکولرزم کی بددولت دنیامیں صنعتی انقلاب آیا۔

باچاخان پہ دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ان کا عدم تشدد کا فلسفہ گاندھی (ھندویزم) کے اھمسا سے متاثر ہیں۔

باچاخان کے مطابق ان کے عدم تشدد کے فلسفے کا بنیاد خالص قران پاک اور اسلامی تعلمیات پہ ہیں۔ قران پاک میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ”جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور عمل صالح اختیار کیا وہ انسان کامیاب ہیں“۔ یہاں پہ عمل صالح کو باچاخان عدم تشدد سے جوڑتے ہیں۔ باچاخان اکثر مجالس میں کہا کرتے تھے کہ قران اور اسلام میں انسانیت سے محبت کا درس دیا گیا ہے اور تشدد وہ لوگ کرتے ہیں جو اپنے حرص اور مفاد کے لئے لڑتے ہیں، اللہ کے مخلوق کی خدمت کرنے والے لوگ کبھی تشدد نہیں کرتے۔

باچان نے اپنے کتاب ”میری زندگی اور میری جدوجہد“ میں کہا ہے کہ 1945 میں ”Quit India movement“ کے دوران کانگرس نے تشدد شروع کیا جبکہ ہم اپنے عدم تشدد پہ قائم رہے کیونکہ عدم تشدد کانگرس کی پالیسی اور ہمارا عقیدہ تھا۔ ان باتوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ باچاخان کے عدم تشدد کے فلسفے کا وجود کہیں اور سے نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات پہ ہیں۔

باچاخان پہ تیسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ان کٕے خدائی خدمتگاروں (Red Shirts) کا لباس سرخ اس لیے تھا کہ وہ با الشویک انقلاب سے متاثر تھے۔ باچاخان اپنے اپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ جس وقت 1930 میں وہ خدائی خدمتگار تحریک بنارہے تھے اس وقت وہ سرخ انقلاب کے بارے میں جانتے بھی نہیں تھے۔ سرخ وردی کی وجہ یہ تھی کہ پہلے خدائی خدمتگاروں کی وردی سفید تھی وہ جلدی میلی ہوجاتی تھی اسی وجہ سے سالاروں نے خود مشورہ کرکے یہ وردی سرخ کردی۔ اس کے دو وجوہات تھے ایک یہ جلد میلی نہیں ہوتی تھی دوسری یہ کہ لوگ ان کو دور سے دیکھ سکتے تھے۔

چوتھا اعتراض ان پہ یہ کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے نمائندہ پارٹی مسلم لیگ میں جانے کے بجائے کانگرس میں کیوں گئے۔ اس کے بارے میں وہ اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ جب 1931 میں ان کے تحریک کے خلاف حکومت نے کریک ڈاٶن شروع کیا اسے اور ان کے دوستوں کو گرفتار کرکے ڈیرہ غازی خان جیل میں بند کیا گیا، ان کے مدرسوں کو بند کیا اور سرحد کے لوگوں پہ ہرطرح کے ستم ڈھائے جانے لگے تو خدائی خدمتگار تحریک کے کچھ لوگ مسلم لیگ سے مدد مانگنے گئے لیکن انہوں نے انکار کیا کہ حکومت کہ خلاف ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتے تو وہ کانگرس کے پاس چلے گئے اور کانگرس نے یہ کہہ کر مکمل تعاٶن کی یقین دہانی کرادی کہ چونکہ ہم دونوں آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں اور ہمارے تحریکیں عدم تشدد پہ ہیں ہم اپ لوگوں کی ہر سیاسی تعاون کریں گے۔ اسی وجہ سے باچاخان مسلم لیگ کے اس اعتراض کو رد کرکے کہتے ہیں کہ ہم کانگرس کے پاس نہیں گئے ہمیں مسلم لیگ نے بھیجا ہے۔

باچاخان پہ ایک اور یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے وجود کے مخالف تھے۔ یقینا باچاخان متحدہ ہندوستان کے حق میں تھے کیونکہ وہ دو قومی نظریے پہ یقین نہیں رکھتے تھے۔ ان کے مطابق تقسیم سے مسلمان آزاد نہیں ہوں گے بلکہ اور زیادہ استحصال کا ووشکار ہوں گے۔ جب تقسیم ہونے لگا تو انہوں نے ایک الگ وطن پشتونستان کا مطالبہ کیا۔ ان کے مطابق اگر مسلم لیگ کے پاکستان کا مطالبہ غداری نہیں تو ان کے پشتونستان کا مطالبہ بھی حق پر ہیں۔

پاکستان کے آزادی کے بعد جب صوبہ سرحد پاکستان کا حصہ بنا تو انہوں نے نہ صرف کھلے دل کا مظاھرہ کرکے تسلیم کیا بلکہ پہلے آئین ساز اسمبلی کے رکن بھی بنے۔ پاکستان بننے کے بعد ان کے خدائی خدمتگاروں کی ٗحکومت گرائی گئی اور بابڑہ کے مقام پہ ان کے پرامن جلسے کے دوران ان پہ فائرنگ کرکے ان کے 650 خدائی خدمتگاروں کو شہید کیا گیا لیکن وہ پھر بھی عدم تشدد پہ قائم رہ کر پاکستان کے خلاف نہ ہوئے۔

ان پہ یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ انہوں نے بھارت سے ”جواہرلال نہرو تمغہ“ لے کر پاکستان سے غداری کی۔ یہ تمغہ 1967 میں ان کے آزادی کے جدوجہد میں ان کے خدمات کو سراہنے کے لئے اسوقت دیا گیا جب اسے ملک بدر کیا گیا تھا اور وہ افغانستان میں تھے۔ اس نے ہندوستان جانے کے لئے افغانستان سے پاکستان کو ویزہ دینے کے لئے خط بھیجا حالانکہ ہندوستانی حکمران ان کو بغیر ویزے آنے کے اجازت دے رہے تھے لیکن اس نے یہ کہہ کہ ان کو رد کیا کہ چونکہ وہ پاکستان کے باشندہ ہیں اسی کے ویزے پہ ہندوستان جائیں گے۔ لہزا پاکستانی حکومت کے ویزہ دینے کے بعد وہ ہندوستان چلے گئے۔ لیکن افسوس یہ کہ ہمارے حکمران اس کے خدمات کو سراہنے کے بجائے اسے آج تک غدار کہتے ہیں۔

باچاخان پہ ایک تنقید یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اس نے پاکستان کے بجائے افغانستان میں دفن ہونے کو ترجیح دی۔ باچاخان نے پشتونوں کو ایک کرنے میں پوری زندگی گزار دی اور وہ آخر میں بھی یہ پیغام دینا چاہتے تھے اس وجہ سے اس نے جلال آباد میں دفن ہونے کی وصیت کی۔ اس کے جنازے کے ساتھ ہزاروں کے تعداد میں پشتون خیبر پاس سے ہوتے ہوئے بغیر ویزے کے جلال آباد (افغانستان) گئے۔ یہ اس بات کا پیغام تھا کہ بارڈر کے دونوں پار پشتون ایک قوم ہیں اور اس مصنوعی بارڈر کے وجہ سے ان میں کوئی تفریق نہیں۔

اس وقت ( 1988 ) روس اور طالبان دونوں فریقوں نے تدفین کی اجازت دی اور فائر بندی کا اعلان کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).