کشمیر کے بارے میں تلخ سچ


پرلے روز دفتر میں اپنے سینئرز کے ساتھ سماج کے ایشوز پر ڈسکس کر رہا تھا گفت و شنید کے درمیان کشمیر کا ذکر چل پڑا میرے ایک سینئر نے ایک جملہ بولا کہ ”کشمیریوں کو لتر پریڈ کرنی چاہیے“ اس جملے سے میرے تن بدن میں آگ لگ گئی بصد احترام کے ساتھ اُن سے گویا ہوا کہ آپ بزرگ ہیں اور آپ نے الفاظ کا چناؤ درست نہیں کیا۔ وہ کہنے لگے کہ کشمیری آج تک خودکُش بمبار پیدا نہیں کر سکے، جنوبی پنجاب سے مجاہد جا کر کشمیر میں لڑتے رہے انھوں نے کشمیریوں کے لیے جانیں قربان کیں، ہمارے ہندوستان کے ساتھ تعلقات خرابی کی بنیادی وجہ کشمیر ہے۔

میں نے اُن سے کہا کہ حضور والا آپ اپنی بات ختم کر چُکے ہوں تو میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر سچ سننے کے لیے دل گردہ چاہیے اور سچ یہ ہے کہ تحریک کشمیر کو جتنا نقصان ان پلانٹڈ ”جہادیوں“ نے پہنچایا کسی اور نے نہیں پہنچایا۔ آپ جن لوگوں کی کشمیر میں جا کر لڑنے کی بات کر رہے ہیں تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ان لوگوں کے لیے اپنے دروازے کھولے مگر انھوں نے ہماری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی عزتیں پائمال کیں۔ ہم گلہ کرتے تو کس سے کرتے کس کے آگے دہائی دیتے۔ کس سے منصفی چاہتے۔

آپ کو یقین نہ آئے تو پوچھیں بڈگام، سری نگر، پلوامہ، انت ناگ، اسلام آباد کے رہائشیوں سے سچائی آپ کے سامنے آ جائے گی۔ ہم اُس وقت کہتے تھے کہ یہ جنگ ہماری ہے اور ہمیں لڑنے دو، اب دنیا تبدیل ہو چکی ہے بندوق کی جگہ قلم نے لے لی ہے، بارود کی جگہ دلیل کا دور ہے ہم یہ جنگ سفارتی سطح پر لڑنا چاہتے ہیں۔ مقتدر قوتیں کشمیر میں اپنا لُچ تلنا نہیں چھوڑ سکتی تو اخلاقی ہماری مدد کریں۔

بیس سال قبل جو باتیں ہم کرتے تھے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے جیشوں، لشکریوں اور جماعتیوں پر پابندی سے ہمارا بیانیہ سچا ثابت ہوا۔ ریاست کو بھی ادراک ہو گیا کہ ان اقدامات کے بغیر ہم دنیا میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔

بیس سال قبل نواز شریف واجپائی کو لاہور لایا۔ وہ اُنھیں اپنے کاروبار میں بڑھاوا دینے کے لیے نہیں لایا تھا اس خطہ میں امن لانے کے لیے لائے تھے سوا ارب آبادی کو آگ و بارود سے بچانے کے لیے مل بیٹھ کر بات کرنے کے لیے لائے تھے۔ بجائے اس کے کہ ریاست اُن کی پُشت پر کھڑی ہوتی اُن کی پیٹھ میں خنجر گھونپا گیا اور انھیں اقتدار سے ہی الگ کر دیا گیا۔ ننانوے سے تھوڑا پیچھے جاہیں تو بی بی شہید کو کشمیر ہاؤس اسلام آباد سے ایک جہادی بل بورڈ ہٹانے کی وجہ سے غدار کہا گیا۔

حال ہی میں ریاست کی طرف سے اُٹھائے جانے والے اقدامات سے ثابت ہوا کہ سول حکمران جس کا راگ الاپ رہے تھے وہ سچ تھا اور بدقسمتی یہ تھی کہ یہ سچ ماننے کی بجائے انھیں بندوق کی نوک پر اقتدار سے بے دخل کرنے کے ساتھ ساتھ غدار وطن کا سرٹیفکیٹ دیتے رہے۔

واصف علی واصف مرحوم کا کہنا تھا کہ جن کے آبا و اجداد کی قبریں ملک میں ہوتی ہیں وہ غدار وطن نہیں ہوتا یہ جنھیں غدار قرار دیتے رہے ان کی سات نسلوں کی قبریں مادر وطن میں ہیں۔

خوشی اس بات کی ہے کہ ریاست سچ کو تسلیم کر رہی ہے سویلین حکمرانوں کے بیانیے کے آگے سرتسلیم خم کر رہی ہے ان کے ساتھ مل کر گھر کو صاف کر رہی ہے۔ یہ ”ووٹ کو عزت دو“ کے بیانیے کی کامیابی ہے۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui