فیاض چوہان: وہ بکا نہیں لیکن کالے جادو کی ہڈی اسے مار گئی


فیاض الحسن چوہان ایک عظیم بطل حریت ہیں جو حق بات کہنے سے کبھی نہ ڈرے۔ بلکہ حق کیا اکثر وہ ناحق بات بھی بلا کسی خوف کے کہہ ڈالتے تھے۔ ان کی یہی حق گوئی تھی جو ان کے مخالفین کو خوفزدہ رکھتی تھی۔ ان مخالفین نے انہیں خریدنے کی کوشش کی۔ وہ نہ بکے۔ یہ تو دلوں کے سودے ہوتے ہیں۔ ریٹ مناسب نہ ہو تو سودا کہاں ہوتا ہے۔

اپنی وزارت کے پہلے دن سے ہی وہ اپوزیشن کے سینوں پر مونگ دل رہے تھے۔ وہ ایک متحرک سیاسی کارکن تھے۔ جماعت اسلامی کے صالحین نے ان کی کردار سازی کی جو جماعت چھوڑنے کے بعد بھی ان کے قول و فعل سے ٹپکتی تھی۔ بلکہ ٹپکتی کہاں تھی، فیاض کے اس فیض کے تو تند و تیز چشمے ان کے انگ انگ سے جاری ہوتے تھے۔

ایسا شخص جس کے دل میں وزارت نے رتی بھر غرور پیدا نہ کیا۔ کبھی کوئی غلطی نہ بھی کی تو پھر بھی وسعت قلبی دکھاتے ہوئے کھلے دل سے اس کی معافی مانگ لی۔ مثلاً وہی نرگس اور میگھا والا بیان دیکھ لیں۔

چوہان صاحب کا دفتر الحمرا میں تھا۔ ویسے تو وہ نظر جھکا کر رکھتے ہیں مگر جب تھیٹر کی بالائی منزل سے گزر رہے ہوں تو یہی نیچے جھکی ہوئی نظر نیچے سٹیج پر ناچتی گاتی نرگس اور میگھا پر اوپر کے اینگل سے پڑ کر انہیں پریشان کر دیتی ہوں گی۔ اس لئے انہوں نے اس بے حیائی سے بچنے کی خاطر ایک دن یہ نیک ارادہ ظاہر کر دیا کہ ”تھیٹر میرے انڈر ہوتا تو پھر میں نرگس کو حاجی نرگس نہ بناتا تو پھر آپ کہتے۔ اگر وہ سال کے تیس نہیں تین سو روزے نہ رکھتی تو پھر مجھے کہتے۔ “

نوٹ کریں کہ وہ ان دو بہکی بہکی سی ناچتی گاتی خواتین کو حاجی بنانا چاہتے تھے۔ مگر قوم اس حد تک بگڑ گئی ہے کہ اس نیک ارادے پر بھی شدید احتجاج کرنے لگی۔ زیادہ افسوس اس بات پر ہوا کہ احتجاج کرنے والوں میں اداکارہ نرگس سمیت دیگر فنکار اور سوشل میڈیا صارفین بھی شامل تھے۔ حالانکہ اگر کوئی امیر وزیر ہمیں حج کی آفر کرے تو ہم احتجاج نہیں قبول کریں گے۔ فیاض الحسن چوہان کی غلطی کوئی نہیں تھی کیونکہ ان کی نیت نیک تھی مگر انہوں نے پھر بھی معافی مانگ لی۔

اسی طرح گزشتہ برس ایک کرنٹ افئیر پروگرام میں ایک میزبان نے پرانے کلپس چلا کر چوہان صاحب کو دکھا دیے۔ اس پر وہ شدید ناراض ہوئے کہ پروگرام حالات حاضرہ کا ہے تو دکھا رہے ہو۔ نئے پروگرام میں پرانے کلپ چلانا بھلا کہاں کا انصاف ہے؟ وہ بھی شیخ رشید جیسے شخص کے بارے میں؟ اس پر چوہان صاحب نے نہایت دلیری سے کیمرے پر ہی وہ الفاظ کہہ دیے جو کوئی بھی مہذب شخص کہتے ہوئے ڈرتا ہے۔

اکتوبر 2018 میں فیاض الحسن چوہان نے نہایت واشگاف الفاظ میں کشمیریوں کی بہادری کا ذکر کیا تھا کہ وہ جابر حکومت کے سامنے بھی ڈٹ جاتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے وہ کوئی بھارتی چینل دیکھتے ہوئے اٹھ کر آئے تھے اس لئے کشمیریوں کی مثالی بہادری کو بہک کر غنڈہ گردی اور بدمعاشی کہہ بیٹھے۔ لیکن نوٹ کریں کہ انہوں نے اپنے الفاظ پر کنٹرول رکھا۔ اگر وہ مکمل طور پر مودی کی زبان بولتے تو اس کشمیری جذبہ حریت کو دہشت گردی کہتے۔ لیکن بجائے اس بات کے کہ ان کے نریندر مودی سے کچھ نرم الفاظ استعمال کرنے پر ان کو شاباش دی جاتی، ان کے خلاف کشمیر بھر میں مظاہرے شروع کر دیے گئے۔ اس پر حکومت بھی دباؤ میں آ گئی اور حکومتی وزرا نے ان کے بیان کی مذمت کر دی۔ چوہان صاحب کی وسعت قلبی دیکھیے کہ یہاں بھی انہوں نے معافی مانگ لی حالانکہ وہ جتنے بڑے آدمی تھے تو ان سے تو یہ توقع بھی نہیں تھی کہ وہ نریندر مودی کی طرح دہشت گرد کا لفظ استعمال کر کے بھی معافی مانگتے۔

جنوری 2019 میں ایک نہایت سینئیر صحافی کو وہ شرم دلوانے میں مصروف تھے کہ صحافی بلاوجہ ہی ناراض ہو گئے اور ان کی پریس کانفرنس کا بائیکاٹ کر بیٹھے۔ حالانکہ شرم و حیا تو ایک مومن کا زیور ہوتے ہیں۔ حالانکہ چوہان صاحب نیکی کی تلقین کر رہے تھے اور ان کی کوئی خطا نہیں تھی لیکن پھر بھی انہوں نے دل بڑا کیا اور معافی مانگ لی۔

اب کل وہ مکار مودی کو ڈرانے دھمکانے کی نیت سے اس کی بے عزتی کرنا چاہتے تھے کہ ہندو کمیونٹی کی شدید توہین کر بیٹھے جس پر ہر طبقہ فکر نے ان کے خلاف احتجاج کیا۔ مانا کہ بڑی خطا تھی لیکن اگر قوم بھی چوہان صاحب کی طرح دل بڑا کرتی تو یہ سوچ کر درگزر سے کام لیتی کہ پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان صاحب کا جغرافیہ کمزور ہے اور نہیں علم نہیں ہے کہ ہندو پاکستانی بھی ہوتے ہیں۔ وہ غالباً یہ سمجھ رہے ہوں گے کہ صرف نریندر مودی اور ان کے بجرنگ دلی کارسیوک ہی ہندو ہوتے ہیں۔ بہرحال یہ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا۔

وزیر اعلی پنجاب نے فیاض الحسن چوہان سے استعفی مانگ لیا۔ حالانکہ چوہان صاحب نے بعد میں بزدار صاحب کو فیس سیونگ کا موقع دیتے ہوئے باہر آ کر بتایا بھی تھا کہ عثمان بزدار نے استعفی نہیں مانگا تھا، صرف وضاحت مانگی تھی۔ لیکن اللہ جانے کیا گڑبڑ ہوئی کہ آخر میں ان سے استعفی لے لیا گیا۔ غالباً چوہان صاحب جلدی میں وضاحت کی بجائے استعفی لکھ آئے ہوں گے اور انہیں علم نہیں ہو پایا۔ بزدار صاحب نے جلدی میں پیر صمصام بخاری کو وزیر اطلاعات مقرر کر دیا۔

دوسری طرف ایک نہایت سینئیر تجزیہ کار عارف بھٹی صاحب نے بتایا ہے کہ فیاض الحسن چوہان کو ان کے بیان کی وجہ سے نہیں ہٹایا گیا۔ انہیں ایک طاقتور گدی نشین نے ہٹایا ہے۔ کیونکہ وہ تحریک انصاف کا فیس ختم کرنا چاہتے تھے۔ بظاہر ان کا اشارہ پیر صمصام بخاری کے برادر محترم کی گدی کی طرف تھا۔

بہرحال عثمان بزدار صاحب کو اتنی جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے تھا۔ وہ غالباً اپنے وزیر اطلاعات کو فالو نہیں کرتے ورنہ انہیں علم ہوتا کہ چوہان صاحب سے استعفی لینے کی بجائے انہیں پیر صاحب سے تعویذ دلوانا چاہیے تھا۔ گزشتہ دنوں ہی چوہان صاحب نے انکشاف کیا تھا کہ ان کے کمرے سے ہڈیاں برآمد ہو رہی ہیں۔ اب تحریک انصاف کے مخالفین تو یہ گمان کریں گے کہ وہ کمرے میں ہی کھاتے پیتے ہیں اور ہڈیاں اچھالتے رہتے ہیں، لیکن ہم جیسے محبین جانتے ہیں کہ چوہان صاحب اپنے پلے سے نہیں کھاتے ہوں گے۔ ہمیں ان کی وضاحت پر اعتبار ہے کہ یہ ہڈیاں کالے جادو کی ہیں۔

چوہان صاحب نے بتایا بھی تھا کہ دشمن جب انہیں خریدنے میں ناکام ہوا تو اس نے ان پر جادو کرنا شروع کر دیا اور اسی وجہ سے ہر دو ہفتے بعد ان کی وزارت جانے کی خبر آ جاتی ہے۔ بدقسمتی سے چوہان صاحب اس اعتماد میں مارے گئے کہ ان کے پاس بڑا جن ہے، ”دشمن دم کرتے ہیں تو ہم ایک دم کرتے ہیں“۔

ہمیں چوہان صاحب کی وضاحت پر یقین ہے۔ یہ کوئی کالا جادو ہی ہو گا جو چوہان صاحب کے نرم الفاظ میں نہایت نیک نیتی سے دیے گئے بیانات بھی سننے والوں کو توہین آمیز سنائی دیا کرتے تھے۔ حق بات یہ ہے کہ بقائمی ہوش و حواس تو کوئی عاقل و بالغ شخص ایسے بیانات نہیں دے سکتا، خواہ اس کی تربیت جس جماعت نے بھی کر رکھی ہو۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar