نواز شریف کی بیماری اور عمران خان


اس کالم نگار کا تعلق لکھنے والوں اُس خاموش گروہ سے ہے جس کا کسی سے کوئی لینا دینا نہیں نہ کوئی مفاد وابستہ ہے، قربت شاہی چاہیے نہ محل میں حاضری کا شوق ہے۔ عالی جاہ کے ساتھ بیرونی دوروں کی خواہش ہے اور نہ سلیفیاں بنانے کا شوق، کسی مقتدر سے اپنے کسی عزیز کو کوئی فائدہ دلوانا ہے اور نہ کسی میگا پراجیکٹس کا ٹھیکہ لینا ہے، کسی سے دشمنی ہے نہ کسی سے ایسی وابستگی جو قلم کی روانی میں رکاوٹ بنے، چاپلوسی و کاسہ لیسی میرے خون میں شامل نہیں، میرا یقین مجھے پیدا کرنے والے رب پر ہے جو اُس نے لکھ دیا وہ مل کر رہے گا۔

نواز شریف جب اقتدار میں تھے تو اُن کی کچھ پالیسوں کے خلاف کھل کر لکھا، بحمداللہ قلم نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا اچھے کاموں پر تحسین بھی کی۔ تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی تو اُن کے حق میں لکھتا رہا۔ میرا بڑا مسئلہ ہے کہ میں ہمیشہ پانی کے بہاؤ کے اُلٹ چلتا ہوں۔

تحریک انصاف جب اقتدار میں آئی تو کھل کر حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی جہاں مناسب لگا وہاں تحسین بھی کی۔ پاک ہندوستان کی حالیہ کشیدگی میں عمران خان کی طرف سے اُٹھائے گئے اقدامات پر ان کی تحسین میں کالم لکھ مارا۔

موجودہ حکومت ریاست کے ساتھ مل کر اُن لوگوں کو قومی دھارے میں شامل کرنا چاہتی جن پر کبھی دہشتگردی جیسے سنگین الزامات تھے، اُن پر معصوم لوگوں کی جانیں لینے کا الزام ہے۔ اُنھیں مسلح افواج میں لینے کی باتیں کی جا رہی ہیں، انھیں سیاسی جماعتوں میں کرادر ادا کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے، احسن قدم ہے ہونا بھی چاہیے۔ اے پی ایس پر حملے میں ملوث لوگ بھی ہماری تحویل میں ہیں ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جا رہا ہے۔ انڈین پائلٹ کو رہا کر کے عمران خان نے گُڈ ول جسچر دیا جسے عالمی برداری میں سراہا جا رہا ہے۔

تعریف و توصیف کے ڈھونگرے برسائے جا رہے ہیں۔ کپتان نے اسمبلی میں بھی اچھی تقریر کی جس پر انھیں دانشور کہا جا رہا ہے۔ دانشور کی نظر دور اندیش ہوتی ہے وہ بہت آگے کی سوچتا ہے۔ مگر جہاں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا نام آتا ہے وہاں کپتان کی مثبت سوچ کے دروازے پر قفل لگ جاتا ہے۔ ہندوستان کے حملے کے بعد پوری قوم متحد نظر آئی، اسمبلی میں اپوزیشن اور حکومت گویا یک جان دو قالب نظر آئی۔

عمران کے آئیڈیل اقبال ہیں اور اقبال کہتا ہے۔

ہوں حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

سابق وزیراعظم نواز شریف کوٹ لکھپت جیل میں صاحب فراش ہیں ان کی طبعیت منتشر ہے دل کا عارضہ لاحق ہے۔ اقبال کے فلسفے کے مطابق عمران خان کو نرم رویہ اپنانا چاہیے انھیں چاہیے کہ وہ اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے انھیں علاج کی غرض سے بیروں ملک جانے کی اجازت دیں۔ حکومت کو خدشہ ہے کہ میاں نواز شریف علاج کے بعد واپس نہیں آہیں وہ ملک کے مقبول لیڈر ہیں اُن کے اباء واجداد کی قبریں اسی ملک میں ہیں وہ موثر ترین ووٹ بنک رکھتے ہیں۔ اللہ نہ کرے دوران قید اُن کے ساتھ کوئی حادثہ رونما ہو جاتا ہے تو عمران خان کے ماتھے پر کلنک کا ایسا ٹیکہ لگ جائے گا جو دنیا کے کسی بھی واشنگ پاوڈر سے دھل نہیں سکے گا متحد قوم میں انتشار پیدا ہو جائے گا جس کو سنبھالنا حکومت کے لیے مشکل ہو جائے گا۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui